وزیر قانون فروغ نسیم ایک مرتبہ پھر اپنے عہدے سے مستعفی

اپ ڈیٹ 01 جون 2020
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم—فائل فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم—فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک مرتبہ پھر اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت 2 جون کو ہوگی اور اسی معاملے میں وفاقی کی نمائندگی کرنے کے لیے فروغ نسیم اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے۔

اس حوالے سے ایک بیان میں فروغ نسیم نے مستعفی ہونے کی تصدیق کی اور بتایا کہ انہوں نے 'استعفیٰ وزیراعظم عمران خان کے کہنے' پر دیا جو کہ منظور کرلیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے استعفیٰ دے دیا

استعفیٰ کی وجوہات بتاتے ہوئے سابق وزیر قانون نے کہا کہ وزیراعظم کی درخواست پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں وفاق کی نمائندگی کروں گا اور اس دوران وزارت قانون کا قلمدان وزیراعظم کے پاس رہے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ سماعت میں وہ صرف عدالتی معاون کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی، بار کونسل یا کسی بھی شخص کے خلاف ذاتی عناد نہیں۔

سابق وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ میرے دل میں عدلیہ اور معزز ججز کے لیے عزت و احترام ہے اور بطور وزیر ہمیشہ قرآن ،حدیث اور آئین کی روشنی میں فیصلے کیے جبکہ کبھی بھی خلاف قانون کچھ نہیں کیا۔

یاد رہے کہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق کیس میں مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے حکومت کی پیروی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔

مزید پڑھیں: فروغ نسیم کی 2 روز بعد وفاقی کابینہ میں واپسی

چنانچہ مذکورہ کیس کی 24 فروری کو ہونے والے آخری سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے وفاقی حکومت کو نیا کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کی ہدایت کی تھی کیوں کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور وزیر قانون اس کیس میں حکومت کی پیروی نہیں کر رہے۔

خیال رہے اس سے قبل فروغ نسیم 26 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدے کی مدت سے متعلق کیس کی پیروی کے لیے وزیر قانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے۔

بعد ازاں ان کے استعفیٰ منظور ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جبکہ 27 نومبر کو وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں عدالت میں اٹارنی جنرل کے ساتھ موجود تھے۔

سماعت کے اگلے روز یعنی 28 نومبر کو بھی وہ عدالت میں موجود تھے اور پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے ان کا لائسنس بھی بحال کردیا تھا لیکن اس کے بعد انہوں نے پی بی سی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی بی سی کا انور منصور، فروغ نسیم کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی پر زور دینے کا عندیہ

تاہم 29 نومبر کو ان کی دوبارہ عہدے پر واپسی ہوگئی تھی اور ایک مرتبہ پھر انہوں نے وزیر قانون کا منصب سنبھال لیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

ریفرنس میں دونوں ججز پر اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو پہلا نوٹس برطانیہ میں اہلیہ اور بچوں کے نام پر موجود جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے حوالے سے جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاری کیا گیا دوسرا شو کاز نوٹس صدر مملکت عارف علوی کو لکھے گئے خطوط پر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ وحید شہزاد بٹ کی جانب سے دائر ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس میں حکومت کو کُل وقتی وکیل مقرر کرنے کا حکم

ریفرنس دائر کرنے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے، پہلے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں، جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ اگر ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاچکا ہے تو اس کی نقل فراہم کردی جائے کیونکہ مخصوص افواہوں کے باعث متوقع قانونی عمل اور منصفانہ ٹرائل میں ان کا قانونی حق متاثر اور عدلیہ کے ادارے کا تشخص مجروح ہو رہا ہے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ سماعت کررہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں