8 سالہ ملازمہ قتل کیس: پولیس کا ملزمان کے پولی گرافک ٹیسٹ کا فیصلہ

پولیس نے موبائل فرانزک کا بھی فیصلہ کرلیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
پولیس نے موبائل فرانزک کا بھی فیصلہ کرلیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

راولپنڈی میں 8 سالہ ملازمہ کے قتل کی تحقیقات کے دوران پولیس نے جوڑے (ملزمان) پر پولی گرافک ٹیسٹ کرنے اور ان کے خلاف ثبوتوں کو مضبوط کرنے کے لیے ان کے موبائل فونز کے فرانزک تجزیے کا فیصلہ کرلیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پنجرے سے طوطے آزاد کرنے پر مالکان کے مبینہ تشدد کا شکار ہونے والی 8 سالہ بچی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک طرف جہاں پولیس نے یہ فیصلہ کیا ہے وہیں دوسری جانب سٹی پولیس افسر (سی پی او) محمد احسن یونس نے متاثرہ بچی کے والد اور دادا سے رابطہ کیا اور انہیں یقین دہانی کروائی کہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی: مالکان کے تشدد سے جاں بحق 8سالہ بچی کے والدین سے 'صلح ' کی کوشش

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان لوگوں کو قانونی معاونت اور سیکیورٹی بھی فراہم کی جائے گی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے علاوہ وائس سیمپل ٹیسٹ (آواز کا ٹیسٹ) اور موبائل فونز کے جائزے سے ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوت جمع کرنے میں مدد ملے گی۔

سی پی او نے ایک بیان میں کہا کہ ملزمان کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ چالان تیار کیا جائے گا تاکہ انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔

علاوہ ازیں کچھ تصاویر اور ویڈیوز بھی برآمد کی گئی ہیں جس میں جوڑے کو بچی کو پنجرے میں رکھنے اور اس پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس سے قبل پولیس نے جوڑے کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا اور بعد ازاں 6جون کو اس میں مزید 3 روز کی توسیع کی گئی تھی۔

دریں اثنا بچی کے والدین کے وکیل اسد بخاری نے ڈان کو بتایا کہ متاثرہ بچی کے والد ایک مزدور ہیں اور وہ مظفرگڑھ میں اپنے گھر سے راولپنڈی تک ایک طرف کا کرایہ بمشکل برداشت کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'جب ان کے پاس اپنے لیے بس کا کرایہ ادا کرنے کے لیے رقم کافی نہیں ہے تو وہ کیسے پولیس تفتیشی افسر کے لیے عدالت اور دیگر مقامات تک نقل و حرکت کے لیے کار کا انتظام کرسکتے ہیں'۔

اسد بخاری نے الزام لگایا کہ پولیس کے تفتیشی افسر نے لڑکی کے والد سے اس وقت ایک سادے کاغذ پر دستخط کرنے کا کہا جب وہ لاش کی تحویل کے سلسلے میں تھانے گئے تھے۔

تاہم وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سی پی او اس کیس کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور لڑکی کے والدین کو انصاف کی فراہمی کے لیے ایک شفاف تحقیقات میں مدد ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں:راولپنڈی: پنجرے سے طوطے آزاد کرانے پر 8 سالہ بچی مالکان کے تشدد کے باعث جاں بحق

واضح رہے کہ 31 مئی کو راولپنڈی میں ایک گھر میں ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی زہرہ کو زخمی حالت میں بیگم اختر رخسانہ میموریل ہسپتال لایا گیا تھا۔

تاہم ہسپتال لانے کے کچھ دیر بعد ہی زہرہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی تھی جبکہ مالکان کو اسی روز گرفتار کرلیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عوام سمیت سیاستدانوں نے بھی 8 سالہ بچی کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں