راولپنڈی: مالکان کے تشدد سے جاں بحق 8سالہ بچی کے والدین سے 'صلح ' کی کوشش

اپ ڈیٹ 08 جون 2020
بچی کے دادا کے مطابق وہ  صرف انصاف چاہتے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی
بچی کے دادا کے مطابق وہ صرف انصاف چاہتے ہیں — فائل فوٹو: اے ایف پی

راولپنڈی: 8 سالہ گھریلو ملازمہ کے قتل کے الزام کا سامنا کرنے والے شادی شدہ جوڑے کے اہل خانہ نے بچی کے والدین کو 'صلح' کی پیشکش کی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پنجرے سے طوطے آزاد کرنے پر مالکان کے مبینہ تشدد کا شکار ہونے والی 8 سالہ بچی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بچی کے دادا سید فضل حسین نے بذریعہ فون ڈان کو بتایا کہ مالکان کے اہلخانہ کی جانب سے صلح کی کوششیں کی گئی تھیں جنہں مسترد کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم صرف انصاف چاہتے ہیں'۔

علاوہ ازیں سید فضل حسین نے یہ بات مسترد کردی کہ بچی کے والدین نے کچھ رقم حاصل کرنے کے بعد اپنی بیٹی کو اس شادی شدہ جوڑے کے پاس راولپنڈی بھیجا تھا۔

مزید پڑھیں: راولپنڈی: پنجرے سے طوطے آزاد کرانے پر 8 سالہ بچی مالکان کے تشدد کے باعث جاں بحق

انہوں نے کہا کہ والدین کو صرف یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ان کی بیٹی اسکول جائے گی اور اس شادی شدہ جوڑنے کی جانب سے اس کا اچھے سے خیال رکھا جائے گا جو حال ہی میں ایک بچے کے والدین بنے تھے۔

متاثرہ بچی کے دادا نے کہا کہ اس سلسلے میں تنخواہ اور کسی بھی چیز کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا سوائے اس کے کہ بچی کے والدین کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ان کی بیٹی بہتر تعلیم حاصل کرے گی اور وہ شہر کے بہتر ماحول میں پرورش پائے گی۔

تاہم اگرچہ بچی 4 ماہ قبل راولپنڈی گئی تھی تو اس دوران اسے صرف 2 یا 3 مرتبہ اپنے والدین سے بات کی اجازت دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ آخری مرتبہ عیدالفطر سے 3 روز قبل بچی نے اپنی والدہ سے فون پر بات کی تھی لیکن کوئی شکایت نہیں کی تھی جو بظاہر مالکان کے ڈر کی وجہ سے نہ کی ہو۔

تاہم سید فضل حسین نے کہا کہ بچی کے والدین کو یقین تھا کہ اسے عیدالاضحیٰ پر اپنے آبائی علاقے جانے کی اجازت دی جائے گی۔

متاثرہ بچی جس کے 3 بھائی اور بہنیں تھیں، غربت کی وجہ سے اسکول نہیں جاسکی تھی اور مظفر گڑھ میں لال چندرہ میں اپنے علاقے میں مدرسے میں زیر تعلیم تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 12 سالہ لڑکی کو ریپ کے بعد 80 فٹ گہرے کنویں میں پھینک دیا

اس تمام صورتحال پر سینئر پولیس اہلکار نے بتایا کہ پولیس نے مالکان کے موبائل فونز سے کچھ ویڈیو کلپس بھی حاصل کی ہیں جس میں دیکھا گیا کہ بچی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پنجرے میں بند کیا گیا۔

دوسری جانب پولیس نے بچی پر جنسی حملے کی تصدیق کے لیے ملزم کے ڈی این اے ٹیسٹ کا فیصلہ بھی کیا ہے کیونکہ پولیس پہلے ہی ایف آئی آر میں ریپ الزامات کی دفعہ شامل کرچکی ہے۔

خیال رہے کہ پولیس نے مالکان کا 4 روزہ ریمانڈ حاصل کیا تھا اور بعد ازاں 6جون کو اس میں مزید 3 روز کی توسیع کی گئی تھی۔

اس حوالے سے پولیس کے تفتیشی افسر نے ڈان کو بتایا کہ ملزمان نے بچی کو تشدد کا شکار بنانے کا اعتراف کرلیا تھا جو اس کی موت کی وجہ بنا لیکن اسے جنسی حملے کا نشانہ بنانے سے انکار کیا تھا۔

واضح رہے کہ 31 مئی کو راولپنڈی میں ایک گھر میں ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی زہرہ کو زخمی حالت میں بیگم اختر رخسانہ میموریل ہسپتال لایا گیا تھا۔

تاہم ہسپتال لانے کے کچھ دیر بعد ہی زہرہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئی تھی جبکہ مالکان کو اسی روز گرفتار کرلیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر عوام سمیت سیاستدانوں نے بھی 8 سالہ بچی کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں