پاکستان نے آزاد کشمیر سے متعلق بھارتی وزیر کے بیان کی مذمت کردی

اپ ڈیٹ 15 جون 2020
دفترخارجہ نےبھارت سے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطالبہ کیا—فائل/وٹو:اے پی پی
دفترخارجہ نےبھارت سے مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن ختم کرنے کا مطالبہ کیا—فائل/وٹو:اے پی پی

پاکستان نے بھارتی وزیر دفاع کی جانب سے آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر جھوٹے بیان کی سختی سے مذمت کی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جموں جان سامواد ریلی سے ویڈیو خطاب میں بھارتی وزیر دفاع نے مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے حوالے سے جو الفاظ استعمال کیے ہیں پاکستان کی اس کی شدید مذمت اور مسترد کرتا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ بیان بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا آزاد کشمیر اور پاکستان سے مخالفت کا ایک اور مظہر ہے۔

مزید پڑھیں:پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کیلئے بھارت کے نئے 'غیر قانونی' ڈومیسائل قانون کو مسترد کردیا

بیان میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام، پاکستان، عالمی برادری اور بیرونی دنیا پر واضح ہے کہ 5 اگست 2019 کو آر ایس ایس نظریات سے متاثر بی جے پی حکومت کا اقدام غیر قانونی اور یک طرفہ ہے، جو خطے کی جغرافیائی تبدیلی کی کوشش ہے۔

پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ڈومیسائل کا نیا قانون اور متعدد قوانین میں ترامیم سے واضح ہے کہ اس کا بنیادی مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کی جائیدادوں پر قبضہ کرنا اور مقامی لوگوں کو مکمل طور پر بے اختیار کرنا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت کے ان اقدامات کا مقصد کشمیریوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں 9 لاکھ سیکیورٹی فورسز تعینات کرکے بندوق کی نوک پر فیصلے چاہتی ہے جہاں گزشتہ 10 مہینوں سے لاک ڈاؤن، سیاسی، سول سوسائٹی کے اراکین، خواتین اور عام افراد زیر حراست ہیں

بھارتی اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگست 2019 کے بعد سیکڑوں معصوم کشمیریوں کو ماورائے قانون اور زیرحراست شہید کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مقبوضہ جموں و کشمیر میں بچوں کو کووڈ-19 سے نفسیاتی مسائل کا سامنا

ترجمان نے بھارتی وزیر دفاع کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ایک اور مقصد بھارت کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور انسانی حقوق کی ناقابل قبول خلاف ورزی سے توجہ ہٹانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت کی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عیاں ہیں، اسی لیے 5 دہائیوں میں پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تین مشاورتی اجلاس ہوئے، امریکی کانگریس اور دنیا کے مختلف ایوانوں میں اس پر بحث کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کووڈ-19 کے وبا سے پریشان ہے ایسے میں بھارتی فورسز جعلی مقابلوں اور چھاپوں میں کشمیری نوجوانوں کی ماورائے قانون قتل و غارت میں مصروف ہے اور یہاں تک کہ لاشوں کو بھی لواحقین کے حوالے نہیں کیا جاتا۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مقامی میڈیا پر سخت قدغن ہے اور فورسز کے ذریعے آوازوں کو دبایا جاتا ہے جبکہ تمام حریت قیادت بدستور زیرحراست ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ بھارت آزاد کشمیر کے حوالے سے جھوٹ بولنے کے بجائے مقبوضہ جموں و کشمیر میں عائد تمام پابندیاں ہٹائے اور فور جی انٹرنیٹ سمیت دیگر مواصلاتی رابطے بحال کردے اور خطے سے قابض فورسز کو واپس بلائے۔

ترجمان نے بھارت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ پی ایس اے، اے ایف ایس پی اے اور یو اے پی اے جیسے انسانیت کش قوانین کو فوری معطل کرکے عالمی مبصرین اور آزاد میڈیا کو مقبوضہ وادی میں جانے کی اجازت دے۔

یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد جموں و کشمیر سول سروسز ایکٹ لاگو کیا جاچکا ہے جس کے مطابق جو وادی میں 15 سال سے مقیم ہیں وہ اپنے ڈومیسائل میں مقبوضہ علاقے کو اپنا آبائی علاقہ قرار دے سکیں گے۔

ایکٹ میں واضح کیا گیا کہ ڈومیسائل میں مقبوضہ علاقے کو اپنا آبائی علاقہ قرار دینے والے شخص کے لیے ضروری ہے کہ اس نے جموں و کشمیر کے وسطی علاقے میں 15 سال تک رہائش اختیار کی ہو یا 7 سال کی مدت تک تعلیم حاصل کی ہو یا علاقے میں واقع تعلیمی ادارے میں کلاس 10 یا 12 میں حاضر ہوا ہو اور امتحان دیے ہوں۔

اس سے قبل جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ 35 اے میں شہری سے متعلق تعریف درج تھی کہ وہ ہی شخص ڈومیسائل کا مستحق ہوگا جو مقبوضہ علاقے میں ریلیف اینڈ ری ہیبیلٹیشن (بحالی) کمشنر کے پاس بطور تارکین وطن رجسٹرڈ ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں