سابق صدر،وزیراعظم کیسز بھگت رہے ہیں، معاون خصوصی کو خصوصی تحفظ ملتا ہے، بلاول

اپ ڈیٹ 09 ستمبر 2020
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ سمیت ملک بھر میں بارش سے متاثرہ علاقوں کے لیے وفاق کی امداد کا مطالبہ کیا — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ سمیت ملک بھر میں بارش سے متاثرہ علاقوں کے لیے وفاق کی امداد کا مطالبہ کیا — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں احتساب کے یکساں نظام کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان میں دو نہیں ایک قانون ہے تو ہم سب کو ایک ہی قسم کا جواب دینا پڑے گا۔

سندھ کے ضلع میرپور خاص میں تالپور ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان کے لیے پاناما ایک زمانے میں بہت بڑا مسئلہ ہوتا تھا لیکن پاناما نواز شریف کے ساتھ شروع یا ختم نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں: پچھلے انتخابات میں ہمارے ادارے جتنے متنازع ہوئے، پہلے کبھی نہیں ہوئے، بلاول

انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ ایک دوسرا معاون خصوصی ہوتا ہے جو سب سے سُپر ڈوپر اسپیشل اسسٹنٹ ہے جن کا ایک قسم کا جادو کا تحفظ ہے، اس پر کوئی انویسٹی گیشن نہیں ہوتی، یہاں تک کہ ای سی ایل سے بھی نام جادو کے ذریعے جلد از جلد ہٹ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اس معاون خصوصی پر پاناما جیسے سنگین الزام ہیں تو کوئی جے آئی ٹی نہیں بنتی، کوئی ان سے حساب نہیں مانگا جاتا اور ایک دوسرے معاون خصوصی کے بارے میں ایک خصوصی خبر آئی ہے اور اس پر تو خان صاحب استعفیٰ مانگنے کو تیار نہیں ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ عمران خان کہتے تھے کہ جب بھی کرپشن کا الزام لگتا ہے تو پہلے استعفیٰ دو، حساب دو، اپنے آپ کو صاف کرو اور پھر واپس آؤ لیکن معاون خصوصی کو خصوصی تحفظ ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاون خصوصی سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ آپ کے پاس، آپ کے خاندان کے پاس بیرون ملک ایک پورا بزنس ایمپائر ہے لیکن اگر سابق صدر کو جواب دینا پڑتا ہے اور اگر پاکستان میں دو نہیں ایک قانون ہے تو ہم سب کو ایک ہی قسم کا جواب دینا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعظم نے معاون خصوصی اطلاعات کا استعفیٰ منظور نہیں کیا، کام جاری رکھنے کی ہدایت'

بلاول نے کہا کہ جیسے آپ نے صدر زرداری سے زیادتی کر کے غیرقانونی جے آئی ٹی بنائی تو ہم اُمید کرتے ہیں کہ اگر اس ملک میں سب کے لیے ایک قانون ہے تو وزیر اعظم سمیت ان پر جے آئی ٹی کب بن رہی ہے اور نیب ان کی گرفتاری کب کررہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر صدر کیسز بھگت رہے ہیں، اگر سابق وزیر اعظم نواز شریف کیسز بھگت رہے ہیں تو پھر براہ مہربانی ان کو بھی ایسے ہی طریقے سے حساب دینا پڑے گا'۔

انہوں نے کہا کہ سابق آمر پرویز مشرف کہتا ہے کہ مجھے کسی نے بتایا کہ سعودی عرب کے شاہی خاندان نے آپ کے بینک اکاؤنٹ میں پیسے رکھوائے ہیں، کیا پرویز مشرف نے جو اس تحفے کی شرح بنتی تھی، کیا توشہ خانے میں وہ حصہ ڈالا، کیا اسے ظاہر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو ادارہ معاون خصوصی کی خبر ساتھ لے کر آیا اسی خبر رساں ادارے نے کہا تھا کہ سابق آمر پرویز مشرف کے پاس بیرون ملک جائیدادیں ہیں جو ایف بی آر کے ریکارڈ سے میل نہیں کھاتیں، کیا کسی میں ہمت ہے کہ ایک سابق آمر اور سرٹیفائیڈ غدار سے حساب لے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کے معاون خصوصی عاصم سلیم باجوہ کا مستعفی ہونے کا فیصلہ

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ یہ مذاق بند کرو، اگر حساب ہونا ہے تو سب کا ہونا ہے، یہ جھوٹے کیسز پر حساب نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ حساب 18ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ، جمہوریت کا لے رہے ہیں اور اگر ہمت ہے تو غداری کی ایف آئی آر کاٹیں اور بتائیں کہ ہم نے 18ویں ترمیم دی، ہم نے عوام کو ان کا حق پہنچایا اور آپ وہ حق واپس لینا چاہتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو حق ہم نے سندھ، پنجاب، گلگت بلتستان، بلوچستان، خیبر پختونخوا کو دیا آپ وہ حق واپس لینا چاہتے ہیں اور آپ ان سے چھیننا چاہتے ہیں اور یہ آپ کا مقصد ہے لہٰذا یہ ڈھکا چھپا جھوٹا کھیل کھیلنا بند کریں اور سامنے آ کر ڈکلیئر کریں کہ یہ ملزم ہیں، انہوں نے 18ویں ترمیم دی ہے اور ہم ان کا ٹرائل کریں گے۔

انہوں نے سیلاب کے حوالے سے وفاقی حکومت سے مدد کی اپیل کی اور مطالبہ کیا کہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرح دیگر ممالک سے امداد کی درخواست کرے۔

یہ بھی پڑھیں: استعفیٰ منظور کر لیتے تو خود بھی مستعفی ہونا پڑ جاتا، مریم نواز

ان کا کہنا تھا کہ 2011 میں وفاقی حکومت کا بین الاقوامی معیار کا منصوبہ تھا جس سے ہم نے پاکستان کارڈ کے ذریعے سیلاب اور بارش کے متاثرین کو پیسہ پہنچایا تھا اور وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں پورے ملک بھر میں اسی طرح کا پروگرام شروع کرنے کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اپیل کرتے ہیں کہ اسی ایس او پیز اور منصوبہ بندی کے مطابق عمل کریں جو اسلام آباد کے کسی دفتر میں پیپلز پارٹی کا ریلیف منصوبہ پڑا ہوا ہے وہ ہی نکال کر عملدرآمد کریں۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان، بلوچستان اور کراچی میں بھی متاثرین ہیں اور سندھ میں بھی بارش سے نقصان ہوا ہے جبکہ کچے میں رہنے والے لوگوں کو ہم نے منتقل کیا ہے اور صوبے میں 25 لاکھ پاکستانی متاثر ہوئے ہیں۔

بلاول نے کہا کہ اس قسم کے قومی سانحے کے لیے سارے پاکستان کو ایک ہونا پڑے گا تاکہ ہم اپنے عوام کو ریلیف پہنچا سکیں۔

مزید پڑھیں: ایک فرد کے احتساب کا سامنا کرنے سے سی پیک کو کچھ نہیں ہوگا، مریم نواز

ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک بحران نہیں ہے، ماضی میں ہمیں صرف ایک سیلاب یا قدرتی آفت کا مقابلہ کرنا پڑا لیکن اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے ہمارے عوام کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وبا کے دوران معیشت پر پڑنے والے اثرات سے وہ ابھی تک نکل نہیں سکے ہیں جبکہ اس سے قبل ٹڈی دل کے حملے سے بھی عوام متاثر ہوئے تھے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ عوام کی بہتری کے لیے حکومت کو ریلیف، بحالی اور ازسر نوتعمیر کے پیپلز پارٹی کے ماڈل پر عمل کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فصل کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے، زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، زراعت کو نقصان پہنچتا ہے تو پورے پاکستان کی معیشت کو نقصان ہوتا ہے، جس طرح کراچی معیشت کا حب ہے بالکل اسی طرح زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

بلاول نے کہا کہ تحریک انصاف کے منشور میں زراعت ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کا کیا گیا ہے لیکن آج تک اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ، ٹڈی دل کے حملے اور تاریخی بارشوں کے بعد آج وقت ہے کہ زراعت کی ایمرجنسی ڈکلیئر کریں کیونکہ اس ملک کے کسان اور ہاری کو آپ کو ریلیف پہنچانا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی نے ہمیشہ عوامی مسائل کے حل کو ترجیح دی، بلاول بھٹو

انہوں نے مزید کہا کہ تاریخی نقصان ہوا ہے اور میں انسانی بنیادوں سے اس ملک کی حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ صرف 5 گھنٹے کا دورہ کر کے واپس نہ جائیں بلکہ آ کر ہمارے ساتھ بیٹھیں جیسے وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کی ٹیم بیٹھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو ناصرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کے متاثرین کے ساتھ نظر آنا چاہیے، وہ اس ملک کے کپتان بنیں اور سیلاب متاثرین کے لیے کپتان بن کے ناصرف ملکی وسائل سے مدد کریں بلکہ صدر آصف علی زرداری کی طرح دیگر ممالک سے بھی مدد کی اپیل کریں۔

بلاول نے کہا کہ این ایف سی میں ہمارا حصہ ہمیں نہیں دیا جا رہا، پہلے 116 ارب اور اس سال 235 ارب کم ملا ہے، بالکل اسی طرح کووڈ میں ہمیں جو وفاق سے اُمید تھی وہ پوری نہیں ہوئی اور ہمیں اپنے وسائل پر انحصار کر کے مدد پہنچانی پڑی۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو جانتے ہیں کہ اس سب میں وقت لگے گا لیکن جو اسلام آباد میں بیٹھے ہیں اور جو میرپور خاص کو نقشے پر بھی نہیں ڈھونڈ سکتے ہیں تو ان کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ جب اس طرح کی تاریخی بارش آتی ہے تو سیلاب بھی آتا ہے.

مزید پڑھیں: حکومت کا 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کا منصوبہ

ان کا کہنا تھا کہ پانی ہٹانے میں وقت لگتا ہے، اس پورے وقت میں پناہ پہنچانی ہے، سر پر چھت پہنچانی ہے اور کم از کم ٹینٹ کا ہی انتظام کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور اس مشکل گھڑی میں ہمیں عوام کا ساتھ دینا پڑے گا اور ہم عوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں لیکن ہم اکیلے ان کے مسائل حل نہیں کر سکیں گے اور اختلافات اپنی جگہ لیکن اس قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے پورے پاکستان کو ایک ہونا پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں