حکومت کا 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کا منصوبہ

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2020
یہ منصوبہ قانون اور انصاف ڈویژنز کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ فائل فوٹو:اے پی
یہ منصوبہ قانون اور انصاف ڈویژنز کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ فائل فوٹو:اے پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے پورے ملک میں 120 احتساب عدالتیں قائم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے لیا، اس منصوبے میں ملک بھر میں اضافی احتساب عدالتوں کے قیام کے لیے انسانی وسائل کی مجموعی ضروریات اور مالی مضمرات شامل ہیں۔

جمعرات کو وزارت قانون کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ منصوبہ قانون اور انصاف ڈویژنز کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا 120 احتساب عدالتوں کے قیام کیلئے سیکریٹری قانون کو حکومت سے ہدایت لینے کا حکم

اس وقت ملک بھر میں 24 احتساب عدالتیں کام کر رہی ہیں جو اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، لاہور، ملتان، کراچی، حیدرآباد، سکھر اور کوئٹہ میں ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان احتساب کے عمل کو تیز کرنے پر زور دے رہے ہیں جس کے لیے یہ اضافی احتساب عدالتیں قائم کی جائیں گی۔

سپریم کورٹ نے 8 جولائی کو ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے سیکریٹری قانون کو فوری طور پر کم از کم 120 احتساب عدالتوں کے قیام کے لیے ہدایات طلب کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ بڑے پیمانے پر زیر التوا کیسز کی سنوائی ہوسکے۔

عدالت عظمی نے سال 2000 سے لے کر اب تک ایک ہزار 226 ریفرنسز کے زیر التوا ہونے کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر 25 میں سے پانچ احتساب عدالتوں میں خالی آسامیوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے یہ ہدایات جاری کی تھیں۔

یہ ہدایات چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 کے سیکشن 16 کی روشنی میں احتساب عدالتوں کے سامنے مقدمات کی سماعت میں تاخیر سے متعلق ازخود کیس کی سماعت کے دوران جاری کی تھیں جس میں بدعنوانی کے کیسز کا 30 دن کی مدت میں فیصلہ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا کہ نیب کے ساتھ کام کرنے والے تفتیشی افسران بدعنوانی کے الزامات کی صحیح طریقے سے تحقیقات کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہیں اور نہ ہی استغاثہ احتساب عدالتوں کے سامنے مقدمات کی پیروی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کرپشن مقدمات کا فیصلہ 30 دن میں ممکن نہیں، چیئرمین نیب

عدالت نے نوٹ کیا تھا کہ نیب کی جانب سے دائر کی گئی درخواست سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سال 2000 سے 2006 اور اس کے بعد کے کیسز بھی احتساب عدالتوں کے سامنے زیر التوا ہیں اور بظاہر ایسا کوئی جواز نظر نہیں آتا ہے کہ ان مقدمات کو زیر التوا رہنے کی اجازت کیوں دی جارہی ہے۔

عدالتی ارتقا کی تاریخ

چیف جسٹس گلزار احمد نے سپریم کورٹ کی عمارت میں نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس 2021 کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے عدالتی نظام پر روشنی ڈالی اور کہا کہ دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کا بھی اپنا عدالتی نظام ہے۔

چیف جسٹس کے مطابق پاکستان میں عدالتی نظام جس طرح اب ہے، ارتقا کی اپنی ایک الگ تاریخ رکھتا ہے اور اس کی جڑ بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی حکمرانی اور برطانوی نوآبادیاتی دور کے زمانے میں پیوست ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ '1947 میں برطانوی حکمرانی کے خاتمے اور آزاد ریاست پاکستان کی تشکیل کے بعد عدالتی نظام تجربات کے ذریعے مزید ترقی پایا، درحقیقت بہتری کا یہ عمل جاری ہے اور جاری رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں