پچھلے انتخابات میں ہمارے ادارے جتنے متنازع ہوئے، پہلے کبھی نہیں ہوئے، بلاول

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2020
موجودہ وزیر اعظم لیڈر نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہے، بلاول — فوٹو: ڈان نیوز
موجودہ وزیر اعظم لیڈر نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہے، بلاول — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پچھلے الیکشن میں ہمارے ادارے جتنے متنازع ہوئے، اتنے پہلے کبھی متنازع نہیں ہوئے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ انتخابی نتائج کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، پاکستان بھر میں پولنگ اسٹیشن سے پولنگ افسران کو باہر نکال دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس انتخابات میں سب کو معلوم تھا کہ فارم 45 کی کیا اہمیت ہے، 90 فیصد فارم 45 تاحال غائب ہیں، اگر غائب نہیں ہیں تو اس پر پولنگ ایجنٹ کے دستخط نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: لاک ڈاؤن مسلط کرنے والی ایلیٹ کلاس کون ہے، بلاول بھٹو

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں شفافیت کے لیے بھرپور کوشش کرتی رہیں کہ اگر سیکیورٹی کے مسائل ہیں تو پولنگ اسٹیشنز کے باہر تک سیکیورٹی دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’دفاعی اداروں کے اہلکاروں کا انتخابی سینٹر کے اندر کھڑے ہونے کا کیا قانونی اور آئینی جواز بنتا ہے؟‘

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 2007 میں دہشت گردی عروج پر تھی، بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملے کے بعد ہونے والے انتخابات میں پولنگ اسٹیشن کے اندر فوج نہیں تھی۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ لیکن معلوم نہیں کیوں، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے دور میں ایسا نہیں ہوا تو عمران خان کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا؟

ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ انتخابات متنازع ہوئے اور جنہیں کبھی بھی متنازع نہیں ہونا چاہیے وہ متنازع ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: جے وی اوپل کیس: نیب نے بلاول بھٹو کو 13 فروری کو طلب کرلیا

بلاول بھٹو نے کہا کہ جب آپ پولنگ اسٹیشن کے اندر اور باہر، فارم کی وصولی اور دیگر معاملات کے وقت موجود ہوں گے تو متنازع ہوں گے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ گزشتہ انتخابات سے جتنا نقصان ہمارے نظام کو پہنچا، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیر اعظم لیڈر نہیں بلکہ کٹھ پتلی ہے اور اس کی وجہ سے عوام سے لے کر ادارے سب نقصان سے دوچار ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان کو لانے کا مقصد نئے پاکستان میں 90 روز کے اندر کرپشن سے ملک کو پاک کرنا تھا اور اب عوام سے پوچھیں کہ نئے پاکستان میں کرپشن کا گراف کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل کے مطابق سلیکٹڈ دور میں جو کرپشن ہورہی ہے، پاکستان کی تاریخ میں اتنی کرپشن نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ حکومت رہی تو جمہوریت، معیشت اور معاشرے کو نقصان ہوگا، کسی کو این آر او نہ دینے کی بات کرنے والے عمران خان نے سب سے زیادہ ایمنسٹی دی ہیں۔

مزیدپڑھیں: بلاول ’ان ٹچ‘ نہیں کہ کوئی ادارہ انہیں طلب نہیں کرسکتا، شہزاد اکبر

بلاول بھٹو نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں بی آر ٹی سب سے زیادہ متنازع ہے اسے بھی این آر او دے دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں جو اثاثے ڈکلیئر کیے گئے ہیں، کیا ان پر آمدنی سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بنتا؟ آئین میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہوا تو آرڈیننس ایوان میں فوری پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ آرڈیننس ایوان میں نہ لا کر انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے بات نہیں کرنی تو چلیں پھر قانون پاس کرکے دکھائیں، مشورہ کرتے تو انہیں بتاتے کہ شخصیت پر مرکوز قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ دال میں کچھ کالا نہیں تھا تو آرڈیننس کو ہم سے اور پارلیمنٹ سے کیوں چھپایا گیا تھا، جس نے کشمیر کا سفیر بننا تھا وہ آج بھارتی جاسوس کلبھوشن کا وکیل بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت ہر چیز کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتی ہے۔

قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بلاول بھٹو زرداری سے زرداری ہاؤس میں ملاقات کی تھی اور دونوں رہنماؤں کے مابین سیاسی صورت حال پر بات چیت ہوئی۔

بی این پی کے وفد میں آغا حسن اور میر حمل کلمتی جبکہ پیپلز پارٹی کے وفد میں فرحت اللہ بابر، نیر بخاری اور مصطفیٰ نواز کھوکھر بھی شامل تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں