'بنی گالا کا علاقہ سی ڈی اے نہیں پنجاب کی ملکیت ہے'

03 اکتوبر 2020
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں بنی گالہ کے علاقے میں بوٹنیکل گارڈ پر بڑے پیمانے پر تجاوزارت اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات سے متعلق کیس اس وقت ایک دلچسپ صورتحال اختیار کرگیا جب یہ بات سامنے آئی کہ اس علاقے کی مالک کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نہیں حکومت پنجاب ہے تاہم اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے متعلقہ ریکارڈ غائب ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حکومت پنجاب کو متعلقہ ریکارڈ مکمل کرنے اور اسے عدالت میں پیش کرنے کا کہتے ہوئے سی ڈی اے، وزارت موسمیاتی تبدیلی اور صوبائی محکمہ جنگلات کے سینئر افسران کو طلب کرلیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اس وقت کے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لکھے گئے اس خط پر غیرقانونی تعمیرات کا ازخود نوٹس لیا تھا جس میں عدالت کی توجہ بوٹنیکل گارڈن پر بڑے پیمانے پر تجاوزات، بنی گالہ کے علاقے میں بغیر دیکھے اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات، بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کی وجہ سے علاقے کو صاف کرنے اور سیوریج کے پانی کے باعث راول جھیل پر آلودگی پر دلائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: بنی گالہ کیس: عمران خان سب سے پہلے ریگولرائزیشن کرائیں، چیف جسٹس

اپنے خط میں عمران خان نے بطور پی ٹی آئی سربراہ بنی گالا کے علاقے میں قانون کی مسلسل خلاف ورزی، ماحول اور مسقبل کی نسل کی صحت اور بہبود پر پڑنے والے منفی اثرات پر روشنی ڈالی تھی۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ سی ڈی اے کو ہدایت دے کہ وہ تجاوزات کرنے والوں، لینڈ مافیاز اور انارکی پھیلانے والے ان بلڈرز کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے مل کر بنی گالا کو کانکریٹ کے جنگل میں تبدیل کردیا۔

تاہم اس حوالے سے دوران سمات ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل (اے اے جی) برائے پنجاب قاسم علی نواز چوہان نے عدالت کو بتایا کہ اب تک وہ 1879 سے 1963 تک کے ریکارڈ کو دیکھ سکے ہیں لیکن وہ اب تک کے ریکارڈ کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسی دوران سی ڈی اے کے قانونی مشیر نے عدالت کوبتایا کہ اس علاقے کا متعلقہ ریکارڈ اتھارتی کے پاس بھی دستیاب نہیں تھا۔

سماعت کے موقع پر اے اے جی کا کہنا تھا کہ 1966 میں اس وقت کے گورنر پنجاب سمیت محکمہ زراعت نے ایک ہزار 362 ایکڑز کی اراضی سی ڈی اے کو لیز پر دی تھی جو اب بنی گالہ کے اطراف کی زمین ہے، یہ زمین انتہائی معمولی قیمت ایک روپے فی ایکڑ پر لیز پر دی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک ہزار 362 ایکڑز میں سے 721 ایکڑ مختص جنگلات کی زمین یا بوٹنیکل گارڈن پر مشتمل ہے جبکہ 641 ایکڑز راکھ بنی گالہ پر مشتمل ہے، یہ علاقے پھول گاراں، موضع اتل، موہرا نور اور بنی گالہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔

حکومت پنجاب کی جانب سے یہ لیز اس معاہدے پر دی گئی تھی کہ جنگلات کا علاقہ جو زیادہ تر صاف جنگل پر مشتمل ہے اسے نہیں چھوا جائے گا اور ویسے ہی برقرار رکھا جائے گا جبکہ کوئی دوسرا محکمہ یا ایجنسی وغیرہ کام نہیں کریں گی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ لیز کی مدت 1991 میں زائد المیعاد (ایکسپائر) ہوگئی لیکن سی ڈی اے نے لیز کے اس پورے عرصے کے دوران حکومت پنجاب کو ایک پائی بھی ادا نہیں کی، مزید یہ کہ اس پورے علاقے میں وسیع پیمانے پر تعمیرات دیکھی جاسکتی ہیں جسے جنگل کیلئے مختص علاقے کے طور پر برقرار رکھنا چاہیے تھا۔

قبل ازیں انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ عدالت نے بنی گالہ کے اطراف کے علاقے کی حد بندی کا حکم دیا تھا لیکن گمشدہ دستاویزات کے باعث اس کو عملہ جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔

یہ بھی پڑھیں: بنی گالا تجاوزات کیس: اسلام آباد کی حالت کراچی اور لاہور سے بدتر ہے، سپریم کورٹ

خیال رہے کہ گزشتہ سماعتوں میں سے ایک میں سی ڈی اے نے عدالت کو بوٹنیکل گارڈن کے 721 ایکڑز کے اطراف دیوار کھڑی کرنے اور تجاوزات ہٹانے کے بارے میں بتاتے ہوئے اس کی حد بندی کے اپنے منصوبے کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔

تاہم جسٹس عمر عطا بندیال نے یاد دلایا کہ زمین کی حد بندی سے متعلق سپریم کورٹ کی جانب سے حکم بہت پہلے 2017 میں دیا گیا تھا۔

اس پر سی ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ اپریل 2018 میں بھی اس نے بنی گالہ کے علاقے میں ان بغیرجانچ اور بغیر منصوبہ بندی کے کی گئی تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی تھی جو 30 مارچ 2018 تک تعمیر ہوئیں جبکہ اس ڈیڈلائن کے بعد تعمیر ہونے والی کوئی بھی تعمیرات کو منہدم کردیا جائے گا۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کی زیرملکیت 300 کنال بنی گالا ایسٹیٹ بھی اسے علاقے میں آتا ہے جسے ریگولرائز کیا گیا، تاہم اب تک ایمنسٹی اسکیم کو عمل جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔

تبصرے (0) بند ہیں