دنیا بھر کے مسلمان فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کے اسلاموفوبیا سے متعلق بیان اور ان کی جانب سے سرکاری عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی نمائش کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

مذہبی جذبات مجروح ہونے پر اداکار حمزہ علی عباسی نے بھی فرانسیسی صدر کے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اپنا بیان جاری کیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کی گئی ٹوئٹ میں حمزہ علی عباسی نے کہا کہ ’اختلاف کرنا اور تنقید کرنا آپ کا حق ہے لیکن دانستہ طور پر تضحیک کرنے اور اشتعال دلانے کے ارادے سے کسی کا مذاق بنانا آپ کا حق نہیں ہے’۔

حمزہ علی عباسی نے کہا کہ یہ غیر اخلاقی اور غیر مہذب ہے جبکہ قتل، جنگ اور دشمنی سے نہیں بلکہ ہم مسلمان صرف امن اور مذاکرات کے طریقے سے دنیا کو یہ سمجھا سکتے ہیں۔

اداکار حمزہ علی عباسی نے اپنے ٹوئٹ میں دیگر مذہبی اور مقدس مقامات کا حوالہ دیا اور اپنے مؤقف کا دفاع کیا۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں سوال کیا کہ اگر مسلمان، رام کے بت پر گائے کا گوشت پھینکنے کا مقابلہ منعقد کروائیں تو کیا ہوگا؟ یا کون یہودیوں کے عبادت خانے میں خنزیز کاٹ سکتا ہے یا کوئی مسیحی مذہب کے پیروکاروں کے مقدس نشان کراس (صلیب) پر تھوک سکتاہے، یہ غلط ہے، اسی طرح ڈیڑھ ارب مسلمان جس نبی اکرم ﷺ کو مانتے ہیں ان کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔

خیال رہے کہ فرانسیسی ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے 2006 میں ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی تھی، جس پر دنیا بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود 2011 میں مذکورہ میگزین نے پھر ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی۔

اسی میگزین نے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کے باوجود وقتا فوقتاً ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت جاری رکھی، جس پر 7 جنوری 2015 کو اس کے دفتر پر دو بھائیوں نے مسلح حملہ کیا تھا جس میں جریدے کا ایڈیٹر، 5 کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مذکورہ واقعے کے بعد میگزین نے ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کا سلسلہ روک دیا تھا، تاہم گزشتہ سال سے ایک بار پھر مذکورہ میگزین کی جانب سے ’توہین آمیز خاکوں‘ کی اشاعت کی جارہی تھی، جس پر دنیا بھر میں اسلامی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔

رواں برس ستمبر کے آغاز میں چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

بعدازاں اکتوبر کے وسط میں فرانس کے ایک اسکول میں استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

اس واقعے کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کردیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

مزید پڑھیں: ’گستاخانہ خاکوں' کا معاملہ: عرب سمیت دیگر مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ

پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

مذکورہ استاد کی یاد میں منعقدہ تقریب میں فرانس کے صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

چنانچہ فرانسیسی صدر کے متنازع بیان کے بعد ہی عرب ممالک سمیت دیگر اسلامی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سمیت فرانسیسی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

یہی نہیں بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فرانسیسی صدر کو 2 مرتبہ ’دماغی معائنہ‘ کرانے کی تجویز دی تھی، جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔

مذکورہ صورتحال پر ردِ عمل دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کی حوصلہ افزائی کر کے اسلام اور ہمارے نبی ﷺ کو ہدف بنا کر مسلمانوں، بشمول اپنے شہریوں کو جان بوجھ کر مشتعل کرنے کی راہ اختیار کی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسلام پر اپنے بلا سوچے سمجھے حملے سے صدر ایمانوئیل میکرون یورپ اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات پر حملہ آور ہوئے ہیں اور انہیں ٹھیس پہنچانے کا سبب بنے۔

علاوہ ازیں فرانس کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا گیا اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں فرانس کے صدر کے اسلاموفوبیا سے متعلق بیان پر مذمتی قرار دادیں بھی منظور کی گئیں۔

دوسری جانب ایران نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر کہا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔

علاوہ ازیں کویت سمیت متعدد عرب ممالک کی کاروباری تنظیموں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور یورپی ملک کی ہر طرح کی مصنوعات کو دکانوں سے ہٹایا جا رہا تھا جس پر فرانس کی حکومت نے عرب ممالک سے اپنی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ختم کرنے کی اپیل بھی کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Ahmed Bajwa Oct 27, 2020 10:11pm
Very Rational point of view. Fully Agreed.