فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں، ایران

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2020
ریلی کے نگراں اور عالم عقیل القدیمی نے فرانس کے صدر سے مسلمانوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا—فوٹو: اے ایف پی
ریلی کے نگراں اور عالم عقیل القدیمی نے فرانس کے صدر سے مسلمانوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا—فوٹو: اے ایف پی

ایران نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر کہا ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون 'انتہا پسندی' کو ہوا دے رہے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'نوآبادیاتی حکومتوں کے ذریعے بااختیار ہونے والے مسلمانوں کو اپنی 'نفرت' کا بنیادی شکار بناتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اردوان کی دوبارہ میکرون کو ’دماغی معائنے‘ کی تجویز، مسلم ممالک کا فرانس کے بائیکاٹ کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں ایک ارب 90 کروڑ مسلمانوں اور ان کی حرمت کی توہین کی گئی جس سے صرف انتہا پسندی کو تقویت ملے گی۔

دوسری جانب عراق میں فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف بغداد میں فرانسیسی سفارت خانے کے باہر سیکڑوں افراد نے احتجاج کیا۔

ریلی کے نگراں اور عالم عقیل القدیمی نے فرانس کے صدر سے مسلمانوں سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم ایمانوئیل میکرون کے گستاخانہ خاکوں کی حمایت میں تبصروں کی مذمت اور سختی سے مسترد کرتے ہیں'۔

احتجاج کے پیش نظر بغداد میں فرانسیسی سفارتخانے پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی۔

مظاہرین نے فرانسیسی پرچم اور صدر کے پوسٹر جلائے۔

مزید پڑھیں: فرانس: چارلی ہیبڈو کے سابقہ دفاتر کے قریب چاقو کے حملے میں 4 افراد زخمی

واضح رہے کہ گزشتہ روز ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب پر مسلمانوں سے متعلق متنازع پالیسیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا تھا کہ ایمانوئیل میکرون کو 'دماغی معائنہ' کرانے کی ضرورت ہے۔

ترک صدر نے اناطولیہ کے شہر قیصری میں ٹیلی ویژن پر خطاب میں کہا تھا کہ ایسے سربراہ مملکت کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جو مختلف مذہبی گروہوں کے لاکھوں ممبروں کے ساتھ اس طرح سلوک کرتا ہو، سب سے پہلے انہیں اپنا دماغی معائنہ کروانا چاہیے۔

جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلالیا تھا۔

فرانسیسی صدر کا متنازع بیان

واضح رہے کہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ترک صدر کا فرانسیسی صدر کو 'دماغی معائنہ' کرانے کی تجویز

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: فرانسیسی صدر نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلایا، وزیراعظم

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے فرانس کے سیکیولر "بنیاد پرست اسلام" کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔

ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے 'بنیاد پرست اسلام' کے خلاف 'دفاع' کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے سعودی عرب، قطر اور ترکی جیسے ممالک کا نام لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ فرانس میں 'اسلام کو غیر ملکی اثرات سے آزاد' کروانا ضروری ہے۔

ان کے مطابق اس مقصد کے لیے، حکومت مساجد کی غیر ملکی مالی اعانت کے بارے میں جانچ پڑتال کرے گی اور اماموں کی تربیت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے یا فرانسیسی سرزمین پر غیر ملکی مبلغین کی میزبانی پر پابندی لگائے گی۔

مزید پڑھیں: جامعۃ الازھر کی اسلام کے حوالے سے فرانسیسی صدر کے بیان کی مذمت

جس پر ردِعمل دیتے ہوئے مصر کے ممتاز اسلامی ادارے جامعۃ الازھر کے اسکالرز نے ''اسلام پسند علیحدگی'' کے حوالے سے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے بیان کو 'نسل پرستانہ' اور 'نفرت انگیز' قرار دیا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں