سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ کی تعیناتی عدالت میں چیلنج

اپ ڈیٹ 06 دسمبر 2020
حکومت نے حال ہی میں ڈی جی سی اے اے کو تعینات کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان
حکومت نے حال ہی میں ڈی جی سی اے اے کو تعینات کیا تھا — فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ میں فلائٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ کو سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی سی اے اے) تعینات کرنے کے خلاف درخواست دائر کردی گئی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ حکومتی عہدیداروں کے خلاف اس تعیناتی پر توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے 28 نومبر کو خاقان مرتضیٰ کو ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی تعینات کیا تھا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے اس سلسلے میں جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے اس وقت سندھ حکومت کے تحت تعینات پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے 21ویں گریڈ کے افسر فلائٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ کو سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی دفعہ 10 کے تحت تعینات کیا ہے، جس کا اطلاع فوری سے ہوگا اور مزید کسی احکامات تک رہے گا۔

خاقان مرتضیٰ گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری کے طور پر کام کر رہے تھے اس کے علاوہ وہ سندھ انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو افسر بھی تھے۔

مزید پڑھیں: حکومت نے بالآخر ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی تعینات کردیا

عدالت میں دائر درخواست میں کیپٹن عاصم نواز نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 27 نومبر کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) کے ایک افسر خاقان مرتضیٰ انتہائی تکنیکی اور چیلینجنگ عہدے کے لیے قابل شخص نہیں، خاص طور پر جب پاکستان کو بین الاقوامی سول ایوی ایشن اتھارٹی (آئی سی اے او) کی جانب سے ملکی ایئرلائن کے پائلٹس کے لیے 188 ممالک کی پرواز پر پابندی کا سامنا ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ یہ عدالت کے نوٹس میں لایا جارہا ہے کہ آئی سی اے او کی جانب سے سی اے اے پاکستان سے متعلق سنگین حفاظتی خدشات کا اظہار کیا گیا ہے اور اگر انہیں بین الاقوامی ایوی ایشن ریگولیٹری اسٹینڈرز کے مطابق صحیح طریقے سے نہیں دیکھا گیا تو اس کے پاکستان کی پوری ہوا بازی کی صنعت کے خلاف سنگین نتائج ہوں گے۔

ساتھ ہی درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت نے دھوکا دہی کی مہارت کے ذریعے عدالتی عمل کو روکنے کی کوشش کی اور قواعد و ضوابط اور سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف ڈی جی سی کا تقرر کیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ پی آئی اے کی جانب سے اے 320 کے تباہ ہونے اور سی اے اے کی نااہلی کے خلاف میڈیا پر کافی دلائل کے بعد وزارت ہوا بازی (ایوی ایشن) کی جانب سے ڈی جی کے عہدے کا اشتہار دیا گیا تھا، جس کے بعد تقریباً 600 اُمیدواروں نے اس عہدے کے لیے اپلائی کیا اور اس میں سے 18 اُمیدواروں کو شارلسٹ کیا گیا اور ’ناکارہ‘ سلیکشن بورڈ نے 14 اکتوبر کو انٹریو کیے لیکن کسی کو منتخب نہیں کیا گیا۔

اس کے بعد 7 نومبر کو سیکریٹری ایوی ایشن نے کابینہ کو بتایا کہ وہ تقریباً 600 درخواست گزاروں میں سے ایک بھی موزوں اُمیدوار کو تلاش نہیں کرسکے، جو ان کی جانب سے (درخواست میں فریق نمبر ایک) چھوٹ، من گھڑت اور بے بنیاد بیان تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ چونکہ شارٹ لسٹ کیے گئے 18 خواہش مند موجودہ ڈی جی سے زیادہ قابل تھے جسے اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے خلاف چنا گیا۔

عدالت عالیہ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ خاقان مرتضیٰ کے تقرر کے لیے جاری نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے اور میرٹ پر تقرر کے لیے احکامات جاری کیے جائیں۔

ساتھ ہی عدالت سے یہ بھی درخواست کی گئی کہ وہ ان حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے جو عدالت کے حکم کو روکنے کے ذمہ دار ہیں۔

علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ آئندہ ہفتے اس درخواست کی سماعت کرے گا۔

پیپلزپارٹی کی تنقید

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت پر الزام لگایا کہ وہ قومی ایئرلائن کی بحالی میں دلچسپی نہیں رکھتی، ساتھ ہی سوال کیا کہ پائلٹس کے جعلی لائسنسز سے متعلق وفاقی وزیر کے دعوے کے پیچھے کیا مقصد تھا۔

سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے صحافیوں کے ایک گروپ سے دوران گفتگو کہا کہ یورپی یونین کی جانب سے اپنے رکن ممالک میں پی آئی اے پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ہماری قومی ایئرلائن کے لیے ایک اور دھچکا ہے اور تحریک انصاف حکومت کی جانب سے دو سال کی نظراندازی اور شدید بدانتظامی کا واضح ثبوت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایوی ایشن سیکریٹری کا بطور قائم مقام ڈی جی سی اے اے کام کرنا غیرقانونی قرار

انہوں نے کہا کہ یہ زیادہ حیران کن بات ہے کہ پچھلی پابندیوں کے باوجود سی اے اے کی جانب سے یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای سا) کے اے آر ٹی 205 (سی)(2) میں موجود شرائط کو پورا نہیں کیا گیا۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ صرف ای سا نہیں ہے بلکہ امریکا اور برطانیہ کے حکام نے بھی پی آئی اے پر پابندی لگائی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی ایئرلائن کو بین الاقوامی سطح پر بدنام ہونے کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں