ڈینیئل پرل کیس: تیسرے گواہ کا بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست منظور

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2020
وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان
وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ میں ڈینیئل پرل کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے حکومت سندھ کے وکیل کی تیسرے گواہ کا بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست منظور کر لی۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈینیئل پرل قتل کیس پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آپ نے ملزمان کے اعتراف جرم کے بیانات پڑھے ان میں دو سوالوں کے جواب دے دیں، فہد والے سوالات ذرا پڑھیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ فہد نے یہ بیان کیوں دیا کہ میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے یہ بیان دے رہا ہوں، یہ بیان دینے کا مقصد کیا ہے؟ یہ اپنے آپ کو بچانے کی خاطر یہ سب کچھ کرنا چاہتا ہے تو اس کو کیسے درست مان لیں۔

مزید پڑھیں: 'ڈینیئل پرل قتل کا تعلق عالمی دہشت گردی سے ہے'

جسٹس طارق نے دریافت کیا کہ کیا اس بیان کے بعد اس کو پولیس کے حوالے نہ کرنے کی کسی نے گارنٹی دی تھی؟ عبوری چالان بھی ٹرائل کا حصہ ہوتا ہے اس پر پورا کیس بن سکتا ہے۔

انہوں نے دریافت کیا کہ وہ کونسا بیان تھا جس کو ترک کیا گیا، کیا اس وقت ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ نہیں ہو سکتا تھا۔

اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ ٹیکنالوجی اس وقت قانونی طور پر قابل قبول نہیں تھی، جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر سزا 2017 میں متعارف ہوئی، اس وقت ٹیکنالوجی کو ثبوتوں کے طور پیش نہیں کیا جاسکتا تھا۔

جسٹس طارق نے کہا کہ ایسے ثبوتوں کو عدالت کے سامنے ثابت کرنا ہوتا تھا۔

حکومت سندھ کے وکیل نے جواب دیا کہ میرا انحصار قانونی شہادت کے آرٹیکل 4 پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت 7 سال قید میں تبدیل، 3 ملزمان رہا

اس پر جسٹس طارق نے کہا کہ ملزم یہ بھی کہہ رہا ہے کہ مجھے مارا پیٹا بھی گیا، ہائی کورٹ نے اس کیس کو کیسے ڈیل کیا ہم نہیں جانتے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عمر شیخ اغوا کا مرکزی ملزم تھا، اس نے اعتراف جرم بھی کیا اور اپنے دفاع میں کچھ کہنے سے گریز کیا، میڈیا اور پولیس کے علاوہ تمام لوگوں کو عدالت سے نکال دیا گیا تھا۔

جسٹس طارق نے سوال کیا کہ کیا ان میڈیا رپورٹرز میں سے کوئی عدالت میں موجود ہے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ میڈیا رپورٹ کیس کے ساتھ منسلک ہے۔

جسٹس طارق نے مزید استفسار کیا کہ جج کے سامنے دیے گیے بیان کو آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ ماورائے عدالت بیان ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ ملزم سے کسی نے کوئی سوال نہیں پوچھا تھا، اس نے خود ہی زبانی بیان دیا۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملزم عدالت میں آیا تو سب کو باہر نکال دیا گیا تھا اور اس کے سینے پر بوجھ تھا اس لیے اس نے مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوتے ہی بیان دے دیا۔

حکومت سندھ کے وکیل نے مؤ قف اپنایا کہ درخواست یہ ہے کہ ہوٹل میں میٹنگز سے لے کر تمام ملزمان آپس میں رابطے میں تھے، تمام شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سازش واضح ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ملزم کے دو الگ الگ بیانات ہیں جس پر جسٹس طارق نے پوچھا کہ عدالت نے کس کو درست ماننا ہے، جو ملزم کو فائدہ دے یا استغاثہ کو؟ آصف محمود آپ کے گواہ کے طور پر بھی پیش ہوا لیکن اس نے کہا کوئی سازش نہیں ہوئی۔

مزید پڑھیں: عمر سعید شیخ: ایک طالبعلم سے مجرم تک کا سفر

وکیل نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تحقیقات میں کچھ کمی رہ گئی ہے، عارف اور عمر شیخ نے دیگر ملزمان کے ساتھ مل کر یہ سازش کی، اگر عدالت اجازت دے تو تیسرے گواہ کا بیان ریکارڈ کر لیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیان ریکارڈ کرانے کے بعد ملزم فہد کو جوڈیشل کردیا گیا تھا، انٹیلی جنس افسر نے بھی بیان کی تصدیق کی کیوں کہ وہ وہیں پر موجود تھا۔

عدالت نے فاروق ایچ نائیک کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

خیال رہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اس وقت اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون پر کام کر رہے تھے۔

جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی ڈینیئل پرل قتل کیس کے فیصلے پر تنقید

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور رواں سال مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلیں تھیں جبکہ مرکزی ملزم عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں 3 ملزمان کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ مجرم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں

واضح رہے کہ ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے 3 ملزمان کی بریت اور مرکزی ملزم کی سزا میں تخفیف کے فیصلے کے خلاف مقتول صحافی کے اہلِ خانہ اور حکومت سندھ نے سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ درخواست دائر کی تھی۔

سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی کی قتل کی ویڈیو کی ایک سرکاری عہدیدار (پی ٹی وی کے ایک ماہر) سے تصدیق کروائی گئی تھی جبکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

چنانچہ جمع شدہ ثبوتوں اور خاص کر ملزم اور شریک ملزمان کے اعترافی بیانات کے تناظر میں ہائی کورٹ کی جانب سے سزا میں تبدیلی اور بریت پائیدار نہیں اور اسے کالعدم ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ڈینئیل پرل کے قاتلوں کو رہا کروانے کا منصوبہ ناکام

اسی طرح فطری اور آزاد شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تاوان کا مطالبہ ملزم نے ہی کیا تھا اور ڈاکیومینٹری ثبوت سے یہ بات ثابت بھی ہوئی چنانچہ سزا میں تبدیلی اور بریت غیر قانونی ہے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ ملزم ایسا کوئی مواد پیش نہیں کرسکا جو پراسیکیوشن کے ثبوتوں کے خلاف شک پیدا کرتا بلکہ شریک ملزمان نے ریمانڈ کے دوران ٹرائل جج کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر اپیل میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے سنگین عوامل سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ ملزم اور شریک ملزمان کی بریت اور سزائے موت میں تبدیلی کا فیصلہ انصاف کا قتل اور عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں