پی آئی اے کی رپورٹ مسترد، کوئی بہتری نظر نہیں آرہی، چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2020
چیف جسٹس نے کہا کہ پروفیشنل افراد کی ضرورت ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس نے کہا کہ پروفیشنل افراد کی ضرورت ہے—فائل/فوٹو: ڈان نیوز

چیف جسٹس گلزار احمد نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بہتری نظر نہیں آرہی، پروفیشنل افراد کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے ارشد محمود ملک کی بطور پی آئی اے سربراہ تعیناتی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: آڈیٹر جنرل کی پی آئی اے کے سی ای او کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ پی آئی اے میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی، پی آئی اے چلانے کے لیے پروفیشنل افراد کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے پی آئی اے کی پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کر دیا اور کہا کہ پی آئی اے پر اربوں روپے کا قرض بھی انتظامیہ کی وجہ سے ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا پی آئی اے تو کورونا سے پہلے ہی بیٹھ چکی تھی، وفاقی وزیر ہوا بازی نے پارلیمنٹ میں خود کہا کہ جو پائلٹس جہاز اڑا رہے تھے ان کے لائسنس جعلی ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلی فرصت میں یورپ میں لینڈنگ پر پابندیاں ہٹوائیں، پی آئی اے نے کچھ نہیں بتایا کہ پابندیاں ہٹانے کے لیے کیا کریں گے۔

پی آئی اے کے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بتائیں پی آئی اے کے کتنے پائلٹس معطل ہوئے ہیں۔

پی آئی اے کے وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ 141 پائلٹس کے لائسنس معطل جبکہ 15 منسوخ کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد ملک ایئرفورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پی آئی اے کے سربراہ رہیں گے

وکیل ارشد ملک اور نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ پی آئی اے نے 480 ارب روپے کا قرض ادا کرنا ہے۔

سپریم کورٹ نے پائلٹس کے جعلی لائسنس سے متعلق سول ایوی ایشن اتھارٹی سے رپورٹ طلب کی اور حکم دیا کہ پائلٹس کے لائسنسز سے متعلق تفصیلی رپورٹ فراہم کی جائے، جس کو حکم نامے میں شامل کریں گے۔

عدالت نے کہا کہ پی آئی اے کو منافع بخش ادارہ بنایا جائے۔

سپریم کورٹ نے نعیم بخاری کی مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت جنوری تک ملتوی کردی۔

پی آئی اے کے سی ای او کا معاملہ

خیال رہے کہ 31 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی لگادی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے اور پی آئی اے میں خرید و فروخت، پالیسی سازی اور ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے بھی فروخت کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں ایئر مارشل ارشد محمود نے اپنے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

مذکورہ درخواست میں وفاق، کابینہ ڈویژن اور وزارت سول ایوی ایشن کو فریق بنایا گیا تھا اور استدعا کی گئی تھی کہ انہیں عہدے پر بحال کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: ارشد ملک کی تعیناتی غیر قانونی ہے،فوری برطرف کیا جائے،آڈیٹر جنرل کی رپورٹ

21 جنوری کو عدالت عظمیٰ نے ارشد ملک کی بحالی کی درخواست مسترد کردی تھی اور سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی۔

واضح رہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان کا ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد وار اسٹیڈیز سے متعلق تعلیم حاصل کی تاہم انہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایوی ایشن قوانین سے کچھ آگاہی نہیں ہے۔

علاوہ ازیں 19 مارچ کو عدالت عظمیٰ نے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے انہیں اپنے عہدے پر بحال کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں