ترکی نے دو سال بعد اسرائیل کیلئے اپنا سفیر مقرر کردیا

14 دسمبر 2020
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ افق الوطاس انتہائی قابل، چالاک اور فلسطینوں کے بہت زیادہ حامی ہیں — بشکریہ الجزیرہ
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ افق الوطاس انتہائی قابل، چالاک اور فلسطینوں کے بہت زیادہ حامی ہیں — بشکریہ الجزیرہ

ترکی نے 2 سال کے وقفے کے بعد اسرائیل کے لیے اپنا سفیر مقرر کردیا ہے۔

ترکی نے غزہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر حملوں کے ردعمل میں مئی 2018 میں اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔

قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ میں 'اَل مانیٹر' کی رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا کہ 40 سالہ افق الوطاس کو اسرائیل میں نیا ترک سفیر مقرر کرنے کا اقدام امریکا کے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کے طور پر اٹھایا گیا ہے۔

ال مانیٹر کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ افق الوطاس انتہائی قابل، چالاک اور فلسطینوں کے بہت زیادہ حامی ہیں جنہوں نے یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی سے عبرانی اور مشرق وسطیٰ کی سیاست کے حوالے سے تعلیم حاصل کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: درجنوں فلسطینیوں کا قتل: ترکی نے اسرائیلی سفیر کو ملک سے جانے کا کہہ دیا

وہ اسرائیل کے علاقائی حریف ایران سے متعلق بھی مہارت رکھتے ہیں لیکن پیشے کے اعتبار سے سفارتکار نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ اسرائیلی کمانڈوز کے ہاتھوں 10 فلسطین کے حامی ترک سماجی رہنماؤں کی ہلاکت کے بعد ترکی نے پہلی بار 2010 میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔

افق الوطاس کی تقرری متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کی جانب سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات معمول پر لانے کے معاہدوں کے بعد سامنے آئی ہے۔

فلسطین کی قیادت نے ان معاہدوں کو عرب ریاستوں کی طرف سے چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی تھی۔

مزید پڑھیں: ترکی اور ایران کی اسرائیل-بحرین معاہدے کی سخت مذمت

خیال رہے کہ گزشتہ سال ڈونلڈ ٹرمپ نے نام نہاد 'مشرق وسطیٰ منصوبہ' پیش کیا تھا جو بڑی حد تک اسرائیل کے حق میں تھا اور جسے فلسطینیوں نے یکسر مسترد کردیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے اور حالیہ معاہدوں دونوں پر ترک صدر رجب طیب اردوان نے تنقید کی تھی اور خود کو مسلم دنیا میں فلسطینیوں کا مضبوط حامی قرار دیا تھا۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل میں نئے سفیر کی تقرری کے بعد کیا انقرہ، اسرائیل سے مکمل سفارتی تعلقات بحال کرے گا یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں