نعیم بخاری نے پی ٹی وی چیئرمین شپ کے ساتھ قانون کی پریکٹس کیلئے مشورہ مانگ لیا

اپ ڈیٹ 22 دسمبر 2020
خط میں نعیم بخاری نے وضاحت کی کہ ان کا تقرر اعزازی ہے—تصویر: فیس بک
خط میں نعیم بخاری نے وضاحت کی کہ ان کا تقرر اعزازی ہے—تصویر: فیس بک

اسلام آباد: معروف وکیل نعیم بخاری نے پاکستان بار کونسل (پی بی سی) سے مشورہ طلب کیا ہے کہ کیا ان کی سرکاری پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے چیئرمین کی حیثیت سے تعیناتی ان کے بحیثیت وکیل پریکٹس کرنے کے لائسنس کو متاثر کرے گی۔

ڈان اخبار کی [رپورٹ][1] کے مطابق پی بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین اعظم نذیر تارڑ کو 16 دسمبر کو لکھے گئے 2 صفحات پر مشتمل خط میں نعیم بخاری نے وضاحت کی کہ ان کا تقرر اعزازی ہے اور اس کا مقصد ادارے کا وقار واپس لانا ہے اور ان کا کردار محض پالیسیز بنانے تک محدود ہے۔

انہوں نے لکھا کہ براہِ مہربانی مشورہ دیں کہ ایسی صورتحال میں کہ جس میں یہ اعزازی کام قبول کیا گیا، اس سے میرے بحیثیت وکیل پریکٹس کرنے کے لائسنس پر کوئی فرق پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے وکیل نعیم بخاری پی ٹی وی چیئرمین مقرر

ڈان سے بات کرتے ہوئے نذیر تارڑ نے تصدیق کی کہ انہیں یہ درخواست موصول ہوئی ہے اور اگر ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 31 دسمبر سے پہلے ہوا تو اس میں یہ پیش کردی جائے گی، 31 دسمبر کو پی بی سی کے موجودہ 22 اراکین کی رکنیت کی آخری تاریخ ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر 31 دسمبر تک اجلاس نہ ہوا تو اس معاملے کا مناسب جواب دینے کے لیے نئے اراکین پر چھوڑ دیا جائے گا۔

منافع بخش عہدہ

نعیم بخاری نے پاناما پیپر کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کے وکلا کی ٹیم کی سربراہی کی تھی، انہوں نے اپنے مراسلے میں لکھا کہ ان کا تقرر آئین کی دفعہ 95-اے کے تحت کیا گیا ہے ساتھ ہی یہ یاد دہانی بھی کروائی کہ بار کونسل ایکٹ 1973 کی دفعہ 5-سی کے تناظر میں انہیں منافع بخش عہدہ نہیں ملا اور نہ ہی وہ سروس آف پاکستان میں اور نہ ہی پی ٹی وی کی کسی سروس میں ملازم ہیں۔

مزید پڑھیں:نعیم بخاری کا پی ٹی وی پر اپوزیشن کے 'بلیک آؤٹ' کا عندیہ

انہوں نے اپنے خط میں یہ بھی کہا کہ 'میں نے اس اعزازی ذمہ داری کا کوئی معاوضہ، فائدہ یا مراعات بھی قبول نہیں کیا'۔

خیال رہے کہ 14 دسمبر کو نعیم بخاری، چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے سامنے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے سربراہ ارشد ملک کی تعیناتی سے متعلق کیس میں پیش ہوئے تھے۔

انہوں نے واضح کیا تھا کہ وہ کوئی معاوضہ نہیں لے رہے بلکہ انہوں نے سرکاری گاڑی اور سرکاری ڈرائیور تک لینے سے انکار کردیا ہے اور ان کے دفتر میں چائے کافی بھی ان کے اپنے پیسوں سے آتی ہے۔

بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن سے استفسار کیا تھا کہ کیا وہ سرکاری عہدہ حاصل کرنے کے بعد بھی بحیثت وکیل کام کرسکتے ہیں جس پر نعیم بخاری نے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کے لیے پاکستان بار کونسل سے رابطہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کی خدمات حاصل کرلیں

پی بی سی کو لکھے گئے خط میں انہوں نے ایڈووکیٹس علی ظفر اور علی بخاری کا تذکرہ کیا تھا جو عدالت میں حاضری کے حقوق پر کسی پابندی کے بغیر پی ٹی وی کے نامزد ڈائریکٹرز تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں