'اپنے اگلے لائحہ عمل کیلئے عوام کی رائے معلوم کریں گے'

اپ ڈیٹ 25 دسمبر 2020
ایوانوں میں بیٹھے لوگوں سے لے کر تمام تنخواہیں اگر یہ شہر ٹیکس نہ دے تو کہاں سے ادا کی جائیں گی، کنوینر ایم کیو ایم — فوٹو: ڈان نیوز
ایوانوں میں بیٹھے لوگوں سے لے کر تمام تنخواہیں اگر یہ شہر ٹیکس نہ دے تو کہاں سے ادا کی جائیں گی، کنوینر ایم کیو ایم — فوٹو: ڈان نیوز

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ مردم شماری کی درستی کے مطالبے پر قائم ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ کا تنظیمی ڈھانچہ گلی کوچوں میں عوام سے اپنے اگلے لائحہ عمل کے حوالے سے ان کی رائے معلوم کرے گا۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'کراچی والوں کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رکھا گیا، ان کو کم گنا گیا اور ان کی نمائندگی کو صرف 25 فیصد کردیا گیا مگر پھر بھی یہ شہر پاکستان کو 65 فیصد اور سندھ کو 95 فیصد ریونیو دیتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ شہر تمام تر زیادتیوں، ناانصافیوں، نظر انداز کیے جانے اور بغیر کسی وجہ کے بڑے آپریشن کیے جانے کے باوجود پاکستان کو ریونیو کما کر دیتا ہے'۔

مردم شماری کو منظور کرنے کے وفاقی کابینہ کے فیصلے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کوئی قومی اتفاق رائے موجود ہے، بات سنی جارہی ہوتی ہے مگر عمل در آمد نہیں ہورہا ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ریاست اور حکومت سے سوال ہے کہ ایسا کوئی اتفاق رائے ہوگیا ہے تو کراچی کے عوام کو ضرور بتائیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'سندھ کے شہری علاقے 1947 میں ہندو اکثریتی شہر تھے اور ایک معاہدے کے تحت مہاجر یہاں آئے اور ہندو یہاں سے گئے، ان شہروں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور مردم شماری میں ان کی آبادی کو بہت کم کرکے دکھایا گیا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: خالد مقبول صدیقی کا وزارت آئی ٹی چھوڑنے کا اعلان

ایم کیو ایم کنوینر کا کہنا تھا کہ 'یہ الزام ثابت ہوچکا ہے کہ کسی نہ کسی وقت پر حکومتوں نے جان بوجھ کر ان آبادیوں کو کم دکھایا، بھٹو صاحب کے دور میں آبادی کو کم دکھانے پر کمشنر کو سزا بھی دی جاچکی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے حکومت میں شامل ہونے کے لیے سب سے پہلا نقطہ مردم شماری کا رکھا تھا، یہ سیاسی مطالبہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کسی بھی مہذب معاشرے میں اس بات کا تصور نہیں کہ لوگ لاپتہ ہوں، لاپتہ ساتھیوں کی بازیابی کا مطالبہ کرنا غیر آئینی، غیر اخلاقی یا غیر اسلامی ہے؟ مگر ہم نے مردم شماری کو اس مطالبے پر بھی ترجیح دی تھی'۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ سندھ کے شہری علاقوں کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ شہر جو پورے پاکستان کو چلا رہا ہے اس کی نمائندگی صحیح طرح نہیں کی گئی اور اس کو وسائل بھی پوری طرح سے نہیں دیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'شہر پانی کا ٹیکس دیتا ہے مگر اسے پانی نہیں ملتا، صفائی کا ٹیکس دیتا ہے مگر صفائی کے انتظامات نہیں، سڑکوں کی تعمیر کا ٹیکس دیتا ہے مگر اس کے پیسے سے کہیں اور کی سڑکیں بن رہی ہیں'۔

ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ 'کراچی کو آپ نے گزشتہ 15 سالوں سے تمام نوکریوں سے باہر رکھا ہے، اپنے اقدامات سے حکومتوں نے سندھ کے شہری علاقوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی نوکریوں پر کراچی کا کوئی حق نہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں سے لے کر تمام تنخواہیں اگر یہ شہر ٹیکس نہ دے تو کہاں سے ادا کی جائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے مردم شماری پر رضامندی کا اظہار کیا تھا اور آخری وقت میں بھی جو بات چیت کی گئی تھی اس سے مختلف فیصلہ کیا گیا۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ کابینہ نے جب یہ فیصلہ کیا اس وقت کابینہ میں موجود ایم کیو ایم کے نمائندے نے شدید احتجاج بھی کیا تھا اور سخت اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے۔

مزید پڑھیں: ایک وعدے پر بھی عمل نہیں ہوا، ہم حکومت میں کیوں شامل رہیں، خالد مقبول

انہوں نے کہا کہ 'ہم اپنے موقف پر قائم رہیں گے اور حکومت میں ہمارے ہونے کی بنیاد اس مطالبے پر ہی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنے اس مطالبے پر عوام سے رجوع کریں گے اور متحدہ قومی موومنٹ کا تنظیمی ڈھانچہ گلی کوچوں میں عوام سے اپنے اگلے لائحہ عمل کے حوالے سے ان کی رائے معلوم کرے گا'۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی سے ڈھائی کروڑ شناختی کارڈ کا اجرا ہوا مگر مردم شماری میں آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ دکھائی گئی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ مردم شماری کے بعد مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے فیصلہ کیا تھا کہ 5 فیصد کا آڈٹ کرایا جائے گا، اگر گزشتہ اور اس حکومت نے اس میں تاخیر کی ہے تو یہ کراچی کے لوگوں کا قصور نہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں سب سے بڑا نشانہ سندھ کے شہری علاقے تھے، انہیں اس زیادتی سے چھٹکارا دینے کے لیے ایک اور آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت میں جب شامل ہوئے تو ہم نے کہا تھا کہ گزشتہ مردم شماری 8 سال تاخیر سے ہوئی تھے، اب اگلی 8 سال قبل کرائی جائے'۔

تبصرے (0) بند ہیں