غیرمحسوس کردار اب پیچھے ہٹ رہے ہیں، مریم نواز

اپ ڈیٹ 26 دسمبر 2020
مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کررہی ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کررہی ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ شہباز شریف اگر اپنے بھائی سے وفادار نہ ہوتے تو وہ وزیر اعظم ہوتے اور پورے پاکستان کو غیرمحسوس کردار نظر آ رہے ہیں جو اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آج بی بی شہید کی برسی کے موقع پر ان کے پاس جا رہی ہوں، ان کی جمہوریت کے لیے جدوجہد تھی اور انہوں نے اس ملک کے لیے بہادری سے جان دی، تو یہ میرے لیے فخر کا مقام ہے کہ مجھے ان کی برسی میں شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کی حکومت چلانے کی تیاری نہیں لیکن تابعداری کی پوری تیاری تھی، مریم نواز

ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ میاں صاحب اور بی بی شہید نے اس ملک کو جو میثاق جمہوریت دیا تھا اس کے بعد پاکستان کی تاریخ تبدیل ہو گئی، یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک انتہائی اہم سنگ میل تھا، میں، بلاول اور تمام سیاسی جماعتیں اس کو لے کر آگے بڑھیں گے اور مضبوط بنائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان میں بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان میں تقسیم بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور پاکستان کو اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، ہم سب جماعتیں مختلف ہیں اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شریک تمام جماعتوں کے الگ الگ منشور اور نظریات ہیں لیکن کچھ چیزیں پاکستان کی خاطر ایسی ہیں جس پر ہم سب اکٹھے ہیں۔

پیر پگاڑا کی جیل میں شہباز شریف سے ملاقات کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صرف یہ دورہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ہمیں حکومتی وزرا کی جانب سے بھی کئی پیغامات موصول ہوتے رہے ہیں، جب ان کو جواب نہیں دیا گیا تو اور لوگوں کو بھیجا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے کہا کہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ میاں صاحب نے بہت اٹل فیصلہ کر یا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن سمیت پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں بھی اس معاملے پر بالکل کلیئر ہیں کہ اس جعلی حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، مذاکرات کی کوشش کر کے یہ پی ڈی ایم سے این آر او مانگ رہے ہیں جو ان کو نہیں ملے گا۔

یہ بھی پڑھیں: استعفے قیادت کو جمع کرادیے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ

انہوں نے کہا کہ جب آپ جیل میں ہوتے ہیں تو آپ کو نہیں پتہ ہوتا کہ کون ملاقات کے لیے آنے والا ہے اور اچانک آپ کو بتایا جاتا ہے، آپ اس وقت انکار کرنے کی پوزیشن میں اس لیے نہیں ہوتے کیونکہ یہ نہیں پتہ ہوتا کہ جو آ رہا ہے کیا کہنے آ رہا ہے، یہ بات آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ جہاں خاندان کو ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی وہاں اس طرح کی شخصیات بغیر کسی رکاوٹ کے مل بھی لیتی ہیں اور ان کے لیے راستے بھی کھل جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت ہی دھاندلی کی پیداوار ہے، اس کی کارکردگی اتنی بری ہے کہ اگلا الیکشن ووٹ سے تو نہیں لے سکتے، 2018 کا نہیں لے سکے تو اتنی بری کارکردگی کے بعد 2023 کا کیسے لیں گے، یہ چاہے جتنی بھی کوششیں کر لیں، ناکام ہوں گے اور اس حکومت کو گھر جانا پڑے گا۔

مریم نواز نے حکومت پر تنقید کا سسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے تو اس حکومت پر رحم آتا ہے جو پی ڈی ایم پر نظریں گاڑ کر بیٹھے ہیں، یہ شکست خوردہ آدمی کی ذہنیت کی نشانہ ہے کہ کوئی پی ڈی ایم لیڈر جلسے میں نہیں پہنچا تو امید لگا کر بیٹھ گئے کہ شاید دراڑ پڑ گئی ہو، یہ ایسے شخص کی ذہنیت ہے جس کو پتہ ہے کہ میں جا رہا ہوں۔

مزید پڑھیں: جمہوریت کیلئے حکومت سندھ اور قومی اسمبلی کی قربانی دینے کو تیار ہیں، بلاول

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ شہباز شریف اپنے بھائی اور پارٹی کے ساتھ بہت وفادار ہیں اور اگر وہ وفادار نہ ہوتے، اگر دھوکا دے سکتے تو اس نالائق کو وزیر اعظم بنانے کی ضرورت نہ پڑتی، وہ وزیر اعظم ہوتے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اپنے بھائی اور پارٹی کے وفادار ہیں، انہوں نے ساری ایسی پیشکشوں کو ٹھکرایا جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج وہ اپنے بیٹے سمیت جیل بھگت رہے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ کوئی استعفے دینے سے دستبردار نہیں ہو رہا، مرتضیٰ جاوید عباسی اور سجاد اعوان سے تو کوئی گمان کر بھی نہیں سکتا کہ وہ دستبردار ہوں گے، وہ سب سے پہلے لوگ تھے جنہوں نے استعفے جمع کرائے، وہ خود حیران ہیں کہ ان کے استعفے اسپیکر تک کیسے پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کا حکم ہے کہ 31دسمبر تک اپنے استعفے پارٹی قیادت کو جمع کرائیں، پارٹی قیادت اور پی ڈی ایم جب فیصلہ کرے گی کہ اسپیکر کو استعفے جمع کرانے ہیں، تو وہ پارٹی خود کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے دو ارکان کے استعفے اسپیکر کو موصول، مریم اورنگزیب کی تردید

ان کا کہنا تھا کہ 160 میں سے 159 صوبائی اراکین اسمبلی کے استعفے مجھے موصول ہو گئے ہیں اور ایک استعفیٰ اس لیے نہیں آیا کہ وہ خاتون وینٹی لیٹر پر ہیں، اسی طرح قومی اسمبلی کے بھی 95فیصد استعفے مجھے موصول ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اس چیز سے امید لگا کر بیٹھا ہے کہ لوگ پیچھے ہٹ رہے ہیں تو وہ خود کو بہت بے وقوف بنا رہا ہے کیونکہ اب لوگ تحریک انصاف نہیں بلکہ مسلم لیگ(ن) اور پی ڈی ایم کی طرف دیکھ رہے ہیں، ہمارے سارے اراکین اور پی ٹی آئی کے اراکین کو بھی پتہ ہے کہ تحریک انصاف کا مستقبل نہیں ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ اگر کوئی اس خام خیالی میں ہے کہ جماعت کے لوگوں کو توڑ لے گا تو وہ غلط ہے، ابھی انہوں نے جمعیت علما اسلام(ف) کے لوگوں کو توڑنے کی کوشش کی تو وہ بیک فائر ہوا۔

انہوں نے کہا کہ صرف مجھے نہیں بلکہ پورے پاکستان کو غیرمحسوس کردار نظر آ رہے ہیں اور پورے پاکستان کو یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ غیرمحسوس کردار اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: عمران خان کو لانے والے اب گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں، نواز شریف

ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے بارے میں سوال کے جواب میں مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے کہا کہ اس بارے میں گفتگو ہو رہی ہے، پارٹی میں دو قسم کی رائے ہے، اکثریتی رائے پارٹی میں یہ ہے کہ الیکشنز میں حصہ نہیں لینا چاہیے اور اگر یہ حکومت جا رہی ہے تو ہم اپنی ایک دو سیٹ قربان کر سکتے ہیں لیکن اس حوالے سے حتمی فیصلہ پی ڈی ایم کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم انتخابات نہیں لڑیں گے، تو ہم نہیں لڑیں گے لیکن اگر قیادت بیٹھ کر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ الیکشنز میں جانا چاہیے تو یقیناً اس پر عمل کیا جائے گا۔

'جتنی مرضی لوگ بھیجیں، ملاقاتیں کروا لیں آپ کو این آر او نہیں ملے گا'

بعد ازاں ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ 'جتنی مرضی اپنے لوگ بھیجیں، ملاقاتیں کروا لیں، جیل میں بھیجیں، فون کروا لیں آپ کو این آر او نہیں ملے گا، آپ کو گھر جانا پڑے گا'۔

ضمنی انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخابات اپوزیشن کے بغیر کرائیں گے؟ وہ تو دھاندلی کر کے بھی آسکتے ہیں جیسے 2018 میں آئے، جس انتخابات میں صرف ایک جماعت شرکت کرے گی اور 80 فیصد عوام شرکت نہیں کرتے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہر جماعت کا اپنا موقف ہوتا ہے، پی ڈی ایم کا اجلاس ہوتا ہے تو سب اپنے موقف کو سامنے رکھتے ہیں، ان پر بحث ہوتی ہے پھر فیصلے ہوتے ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں