قصور: ریپ کے الزام میں گرفتار ملزم عادی مجرم نکلا

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2020
پولیس کا کہنا تھا کہ ننکانہ صاحب کا رہائشی ملزم ایک رکشہ ڈرائیور ہوا کرتا تھا—فائل فوٹو: حسن فرحان
پولیس کا کہنا تھا کہ ننکانہ صاحب کا رہائشی ملزم ایک رکشہ ڈرائیور ہوا کرتا تھا—فائل فوٹو: حسن فرحان

قصور: کم سن لڑکی کے ریپ کے الزام میں گرفتار شخص نے دیگر 4 کم سن لڑکیوں کے جنسی استحصال کا اعتراف کیا ہے جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ریپ کرنے پر 2 مرتبہ ملزم پر مقدمہ بھی درج ہوا تھا لیکن مبینہ طور پر اس کے رشتہ دار شکایت گزار گھرانوں نے اسے معاف کردیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سرائے مغل پولیس کے مطابق 45 سالہ ملزم کو ایک کم سن لڑکی کا ریپ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جس نے 4 دیگر بچیوں کے ریپ کی کوشش کا بھی اعتراف کیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ ننکانہ صاحب کا رہائشی ملزم ایک رکشہ ڈرائیور ہوا کرتا تھا لیکن بعد میں اس نے اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنا شروع کردیا تھا جہاں اس نے کم سن لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: قصور میں ریپ واقعات: مجرمان کو گرفتار نہ کرنے پر پولیس کے خلاف احتجاج

پولیس کا کہنا تھا کہ ننکانہ صاحب میں رہتے ہوئے ملزم نے مبینہ طور پر اپنے چچا کی بیوی کو تعلقات قائم کرنے سے انکار پر زخمی کردیا تھا۔

اسے پولیس نے گرفتار کیا تھا لیکن شکایت کنندہ کے اہل خانہ کی جانب سے معاف کیے جانے پر چھوڑ دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ اسے اپنے بھائی کی بیوی کو اپنے ساتھ تعلقات نہ بنانے پر تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام بھی گرفتار کیا گیا تھا لیکن شکایت کنندہ کی جانب سے الزامات واپس لینے پر رہا کردیا گیا تھا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ وہ ننکانہ صاحب سے ملزم کا کرمنل ریکارڈ حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: قصور: 48 گھنٹے میں 4 خواتین، 3 کم عمر لڑکوں سے ’ریپ‘ کے مقدمات درج

ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے ضلع قصور میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 5 سے 15 سال کے درمیان 6 لڑکیاں مبینہ طور پر ریپ یا ریپ کی کوشش کا نشانہ بنیں۔

ان واقعات سے پھیلنے والے خوف و ہراس کے باعث گزشتہ دنوں مقامی افراد نے پولیس پر نابالغ لڑکیوں کے عصمت دری کرنے والوں کو گرفتار کرنے اور مقدمہ درج کرنے میں ناکام ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے سرائے مغل تھانے کے باہر احتجاج بھی کیا تھا۔

خیال رہے کہ قصور اس طرح کے واقعات کے لیے بدنام رہا ہے جہاں گاؤں حسین خان والا میں سیکڑوں بچوں کے ساتھ کئی برسوں تک بدسلوکی کرنے اور ان کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔

قصور میں ہی 2018 میں قومی توجہ حاصل کرنے والا زینب زیادتی اور قتل کیس سامنے آنے سے قبل بھی 7 لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: قصور: جنسی ہراسانی میں ناکامی پر لڑکے کو 'قتل' کرنے والا پولیس اہلکار گرفتار

اس کے علاوہ چونیاں میں گزشتہ سال چار کم عمر لڑکوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔

بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے ان واقعات نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی جبکہ اس سے قبل مقامی پولیس نے ان کو نظرانداز کیا تھا۔

پولیس مقدمات درج کرنے اور ملزمان کی گرفتاری میں ناکام رہی تھی جبکہ عوام کے سڑک پر آنے کے بعد ہی حکومت پنجاب اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں