قصور میں ریپ واقعات: مجرمان کو گرفتار نہ کرنے پر پولیس کے خلاف احتجاج

26 دسمبر 2020
قصور میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 5 سے 15 سال کے درمیان 6 لڑکیاں مبینہ طور پر ریپ یا ریپ کی کوشش کا کا نشانہ بنیں، رپورٹ - فائل فوٹو:اے پی
قصور میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 5 سے 15 سال کے درمیان 6 لڑکیاں مبینہ طور پر ریپ یا ریپ کی کوشش کا کا نشانہ بنیں، رپورٹ - فائل فوٹو:اے پی

قصور: سرائے مغل کے سینکڑوں دیہاتیوں نے پولیس پر نابالغ لڑکیوں کے عصمت دری کرنے والوں کو گرفتار کرنے اور مقدمہ درج کرنے میں ناکام ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف احتجاج کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک ماہ کے دوران 5 سے 15 سال کے درمیان 6 لڑکیاں مبینہ طور پر ریپ یا ریپ کی کوشش کا کا نشانہ بنیں۔

خوف و ہراس نے مقامی لوگوں کو سرائے مغل پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہونے اور عصمت دری کے واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کرنے پر مجبور کیا۔

مظاہرین نے ٹائر جلا کر سڑک بلاک کردی اور ٹریفک روک دیا اور کہا کہ پولیس نے نہ تو کوئی مقدمہ درج کیا ہے اور نہ ہی کسی ملزم کو گرفتار کیا ہے۔

مزید پڑھیں: قصور: 48 گھنٹے میں 4 خواتین، 3 کم عمر لڑکوں سے ’ریپ‘ کے مقدمات درج

قصور اس طرح کے واقعات کے لیے بدنام رہا ہے جہاں گاؤں حسین خان والا میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ کئی سالوں تک بدسلوکی کرنے اور اس کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کرنے کا واقعہ سامنے آیا تھا۔

قصور میں ہی 2018 میں قومی توجہ حاصل کرنے والا زینب زیادتی اور قتل کیس سامنے آنے سے قبل بھی 7 لڑکیوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ چونیاں میں گزشتہ سال چار کم عمر لڑکوں کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔

بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے ان واقعات نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی جبکہ اس سے قبل مقامی پولیس نے ان کو نظرانداز کیا تھا۔

پولیس مقدمات درج کرنے اور ملزمان کی گرفتاری میں ناکام رہی تھی جبکہ عوام کے سڑک پر آنے کے بعد ہی حکومت پنجاب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آتے تھے۔

جمعہ کے روز مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ریپ اور ریپ کی کوششوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کی ساری فریادیں بہرے کانوں میں پڑ رہی ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملزمان نامعلوم نہیں ہیں جب کہ انہوں نے مقامی پولیس کو سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دی ہیں جو اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں باہر آکر سڑک بلاک کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

دوسری جانب جہاں احتجاج جاری تھا وہیں پولیس نے دعوٰی کیا کہ انہوں نے ایک مبینہ زیادتی کرنے والے کو گرفتار کرلیا ہے۔

پولیس نے یہ بھی دعوی کیا کہ انہوں نے پہلے ہی بچوں سے بدفعلی کا مقدمہ درج کرلیا تھا اور جلد ہی 5 دیگر مقدمات بھی درج کرلیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: قصور: جنسی ہراسانی میں ناکامی پر لڑکے کو 'قتل' کرنے والا پولیس اہلکار گرفتار

ڈی پی او عمران کشور نے احتجاج کے مقام پر پہنچ کر مظاہرین کو انصاف کی یقین دہانی کروائی جس کے بعد مظاہرین پر امن طور پر منتشر ہوگئے تاہم خبردار کیا کہ اگر مشتبہ افراد کو گرفتار نہیں کیا گیا تو وہ دوبارہ سڑکوں پر آجائیں گے۔

نئے مقدمات

قصور کے مختلف علاقوں میں جمعہ کے روز دو خواتین کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ایک خاتون ریپ کی کوشش سے بچ گئی۔

صدر دیوان روڈ پر ایک پراپرٹی ڈیلر نے کرائے پر مکان دکھانے کے بہانے ایک خاتون کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا۔

ایک اور واقعے میں ، ایک شخص نے ایک خاتون کو پتوکی بائی پاس کے قریب ویران جگہ پر لے جانے کے بعد اس کے ساتھ زیادتی کی۔

اس کے علاوہ ٹیکسٹائل مل کے سیکیورٹی گارڈ نے ایک خاتون کے ساتھ ریپ کی کوشش کی جسے اس نے نوکری کے لیے انٹرویو کے بہانے دفتر میں بلایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں