وفاقی حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت کے تحفظات سامنے آگئے

اپ ڈیٹ 28 دسمبر 2020
بی اے پی کے 9 سینیٹرز ہیں جن میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی شامل ہیں—تصویر: اے پی پی
بی اے پی کے 9 سینیٹرز ہیں جن میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی شامل ہیں—تصویر: اے پی پی

کوئٹہ: وفاقی حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے عمران خان کی سربراہی میں وفاقی حکومت کو مکمل حمایت فراہم کرنے کے باوجو وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں میں نمائندگی نہ ملنے پر تحفظات کا اظہار کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بی اے پی کے صدر جام کمال خان علیانی کی سربراہی میں سینیٹرز، اراکین قومی اسمبلی، صوبائی وزرا اور سینئر رہنماؤں پر مشتمل اجلاس میں وفاقی کابینہ میں کم نمائندگی ملنے پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔

خیال رہے کہ بی اے پی کے 9 سینیٹرز ہیں جن میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں ان کے اراکین کی تعداد 5 ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کا پی ٹی آئی کی اتحادی حکومت سے علیحدگی کا اعلان

ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں سینیٹ انتخابات کے علاوہ سینیٹر کلثوم پروین کے انتقال سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست اور جے یو آئی (ف) کے سید فضل آغا کے انتقال سے خالی ہونے والی بلوچستان اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخاب کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اجلاس میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی اراکین کو بلوچستان کابینہ میں مناسب نمائندگی دی گئی ہے لیکن بی اے پی کو وفاقی اور خیبرپختونخوا کابینہ میں کوئی حصہ نہیں دیا گیا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان علیانی نے اجلاس کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنی پارٹی کے تحفظات سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کریں گے۔

اس سے قبل بلوچستان سے تعلق رکھنے والی حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اختر مینگل بھی وفاقی حکومت سے ناراضی کا اظہار کر کے علیحدہ ہوچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان حکومت میں اختلافات،اسپیکر کی وزیر اعلیٰ کےخلاف تحریک استحقاق

دوسری جانب اسی حوالے سے نجی چینل جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں بات کرتے ہوئے ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت میں ایک نشست کے طلبگار اور حق دار ہیں، جس کی وزیراعظم عمران خان نے حکومت تشکیل دیتے ہوئے یقین دہانی بھی کروائی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے زبیدہ جلال کو وزیر برائے دفاعی پیداوار کا عہدہ دیا لیکن اس وزارت میں براہ راست بلوچستان کے عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہے، انہیں نہ نوکریاں مل سکیں نہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی کام کیا جاسکا۔

لیاقت شاہوانی نے کہا کہ ہمارے تحفظات بلوچستان کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیں اور ہم وقتاً فوقتاً وزیراعظم کو یاددہانی بھی کرواتے رہے ہیں کہ ہمارے 5 اراکین قومی اسمبلی ہیں، ایک اور وفاقی وزارت کا ہمارا حق بنتا ہے جو کہ بلوچستان کے عوام کی خدمت کرنے کے لیے ہمیں درکار ہے۔

ترجمان بلوچستان حکومت نے مزید کہا کہ بلوچستان کابینہ میں شامل پی ٹی آئی اراکین کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف اس محبت کا مناسب جواب نہیں دیتی اور ہمیں یہ محسوس ہوا کہ بی اے پی کے مینڈیٹ کے مطابق اسے وفاقی حکومت میں جگہ نہیں ملی۔

یہ بھی پڑھیں: وفاق، صوبے میں بی اے پی کا پی ٹی آئی سے اتحاد، جام کمال وزیراعلیٰ کے امیدوار

انہوں نے کہا کہ بی اے پی گزشتہ ڈھائی برسوں میں ہر معاملے پر پی ٹی آئی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے لیکن اس سے قبل بھی وزیراعظم کو اس اہمیت، اس ذمہ داری کا اشارہ کرتے رہے ہیں لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد ہماری گزارشات بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اراکین کے استعفوں سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن وفاقی حکومت اگر ہماری گزارشات کو نظر انداز کرتی رہی تو اس سے فرق پڑ سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں