مسیحی قیدی کا 'غیر قانونی حراست' کےخلاف پشاور ہائیکورٹ سے رجوع

اپ ڈیٹ 08 جنوری 2021
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ان کی حراست کو غیر قانونی قرار دے —فائل فوٹو: اے پی پی
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ان کی حراست کو غیر قانونی قرار دے —فائل فوٹو: اے پی پی

پشاور سینٹرل جیل میں قید مسیحی اقلیت کے رکن نے طویل عرصے سے ’غیر قانونی‘ حراست سے رہائی کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار شکیل مسیح نے دعویٰ کیا کہ وہ تقریباً 10 سال سے بغیر کسی ٹرائل کے قید ہیں جبکہ ان کے مبینہ جرم اور حراست کا ریکارڈ قبائلی ضلع خیبر کی متعلقہ عدالت سے بھی غائب ہے۔

مزید پڑھیں: 101 سالہ بزرگ قیدی گجرات کی جیل میں انتقال کر گئے

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ان کی حراست کو غیر قانونی، غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے۔

شکیل مسیح نے الزام لگایا کہ ٹرائل کورٹ کوئی وجہ بتائے بغیر ہر 14 دن بعد انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے لیے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کر دیتی ہے۔

شکیل مسیح نے عدالت سے اپنی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ قبل خیبر کے علاقے میں فوجی اہلکاروں کے قتل میں ان کے ملوث ہونے سے متعلق کوئی ریکارڈ بھی دستیاب نہیں ہے۔

شکیل مسیح کی درخواست وکیل سیف اللہ محب کاکا خیل نے دائر کی جو عوامی مفادات کے مقدمات کی وجہ سے مشہور ہیں۔

درخواست میں جواب دہندگان میں ایڈووکیٹ جنرل، جیلوں کے صوبائی انسپکٹر جنرل، سیکریٹری داخلہ، خیبر ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر، ضلع خیبر کے ضلعی اور سیشن جج اور پشاور سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’جیل میں بند ہوجانے سے قیدی انسانی کنبے سے الگ نہیں ہوجاتا‘

شکیل مسیح کا کہنا تھا کہ انہیں قبائلی علاقے خیبر میں چند فوجی عہدیداروں کے قتل کے الزام میں 10 سال قبل گرفتار کیا گیا، لیکن ایف آئی آر سمیت اس بارے میں کوئی دستاویز ریکارڈ پر دستیاب نہیں ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ اگرچہ ان کے خلاف کوئی ایف آئی آر یا کوئی بھی قابل گرفت ثبوت موجود نہیں ہیں لیکن انہیں کسی قانونی جواز کے بغیر حراست میں لیا گیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کے تحت ان کو اپنے کیس سے متعلق کوئی دستاویز فراہم نہیں کی گئی۔

شکیل مسیح نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا کہ انہیں ایک دہائی سے عدالت کے احاطے میں لے جایا جاتا ہے لیکن اہلکار انہیں متعلقہ جج کے سامنے پیش کیے بغیر جیل واپس لے آتے ہیں۔

درخواست گزار نے اپنی درخواست میں تعجب کا اظہار کیا کہ جب عدالت کے پاس ان کے کیس کا ریکارڈ دستیاب نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے خلاف غیر معینہ مدت تک عدالتی ریمانڈ کی منظوری دی جاسکے۔

شکیل مسیح نے کہا کہ جب تک ان کے قتل میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہوتا یا ان کے کیس کا ریکارڈ موجود نہیں ہوتا تب تک عدالت کو انہیں بری کر دینا چاہیے یا متعلقہ دستاویزات دستیاب ہونے تک ضمانت پر رہا کردے۔

مزید پڑھیں: گجرات جیل میں عمر قید کے 100سالہ قیدی کی رہائی کی اپیل

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ کے پاس ضابطہ اخلاق کی دفعہ 265 'کے' کے تحت کسی ملزم کو بری کرنے کا اختیار ہے جب ملزم کے خلاف ناکافی ثبوت موجود ہوں اور شکایت کنندہ اور گواہ اس کے سامنے پیش نہیں ہوتے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں منصفانہ ٹرائل سے محروم رکھا گیا جس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 10 'اے' میں دی گئی ہے۔

شکیل مسیح نے کہا کہ انہیں بلاوجہ آزادی سے محروم رکھا گیا جو آئین کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے۔

وکیل سیف اللہ نے ڈان کو بتایا کہ پہلے ان کے مؤکل کے والد نے اس مقدمے کی پیروی کی لیکن کچھ سال قبل ان کی وفات کے بعد مقدمے کی پیروی کرنے والا کوئی نہیں رہا۔

انہوں نے شکیل مسیح کے حوالے سے بتایا کہ ان کے گھر والوں سے اس معاملے پر خاموش رہنے کو کہا گیا اور وہ آگے آنے سے ڈرتے ہیں، اس لیے وہ جیل سے اس معاملے کی پیروی خود کر رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں