تقسیم کار کمپنیوں کو بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 1.06 روپے اضافے کی اجازت

اپ ڈیٹ 12 جنوری 2021
نیپرا کے مطابق یہ اضافہ عارضی ہے — فائل/فوٹو: رائٹرز
نیپرا کے مطابق یہ اضافہ عارضی ہے — فائل/فوٹو: رائٹرز

نیشنل الیکٹرک پاور ریگیولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے واپڈا کی سابق تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کے لیے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 1.06 روپے اضافے کی منظوری دے دی تاکہ خسارے کے شکار توانائی کے شعبے کو 8.4 ارب روپے کا سرمایہ حاصل ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیپرا کی جانب سے اکتوبر اور نومبر 2020 میں ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے طور اضافے کی منظوری دی ہے جو صارفین کو جنوری کے بل کے ساتھ ادا کرنا پڑے گا اور اس کا اطلاق تمام صارفین پر ہوگا تاہم ماہانہ 50 یونٹ استعمال کرنے والے صارفین اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: نیپرا نے ملک میں بلیک آؤٹ کی تحقیقات کا فیصلہ کرلیا

نیپرا نے 30 دسمبر کو عوامی سماعت کی جہاں فرنس آئل اور ڈیزل سے تیار ہونے والی مہنگی بجلی کی وضاحت پر مبنی سوالات کیے گئے، نیپرا نے کہا کہ ریکارڈ اور دستاویزات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا۔

ڈسکوز نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 1.53 روپے اضافے کا مطالبہ کیا تھا جس سے 12.5 ارب روپے سرمایے کی توقع ظاہر کی گئی تھی۔

نیپرا نے گزشتہ روز جاری اپنے حکم نامے میں کہا کہ بادی النظر میں مؤثر پاور پلانٹس کو مکمل طور پر استعمال نہیں کیا گیا اور مہنگے آر ایف او اور ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) کے پاورپلانٹ سے بجلی پیدا کی گئی جس سے 2.011 ارب سے زائد خرچ ہوا اور اس کے نتیجے میں اکتوبر 2020 میں آر ایف او کو 1.88 ارب روپے اور ایچ ایس ڈی ے کھاتے میں 131 ارب روپے آئے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اس حوالے سے نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی)، نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ اتھارٹی (این ٹی ڈی سی) اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کو بارہا مکمل وضاحت دینے، نیپرا کو مطمئن کرنے اور تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں: پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بڑھ کر نومبر تک 23 کھرب 6 ارب روپے ہوگئے

حکم نامے میں کہا گیا کہ این پی سی سی اور این ٹی ڈی سی نے آر ایف او اور ہائی اسپیڈ ڈیزل سے چلنے والے پلانٹس کی تفصیلات وجوہات کے ساتھ فراہم کیں لیکن نیپرا نے ای ایم او کے انحراف سے مالی طور پر پڑنے والے اثرات کا تخمینہ لگانے کے لیے اپنا محکمہ جاتی کام مکمل کرلیا ہے۔

نیپرا کا کہنا تھا کہ جائزے سے معلوم ہوا کہ ای ایم او کے باعث ری گیسیفائیڈ لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کی کمی، تیکنیکی خامیوں اور مؤثر پلانٹس کے استعمال نہ کرنے سے ہونے والے نقصان کے مجموعی دعوے سے 86 کروڑ 30 لاکھ روپے قابل منہا ہیں۔

حکم نامے کے مطابق اسی لیے فیصلہ کیا گیا کہ این پی سی سی، این ٹی ڈی سی اور سی پی پی اے جی کی جانب سے وضاحت کے ساتھ مکمل تفصیل فراہم کرنے تک مذکورہ رقم کو فیول ایڈجسٹمنٹ میں شامل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے۔

نیپرا نے جائزہ لینے کے بعد کمپنیوں کو فیول کی مد میں فی یونٹ 1.06 اضافہ کرنے کی اجازت دے دی جس میں دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔

مذکورہ رقم کی اجازت آر ایف او کے خلاف زیر سماعت سوموٹو کا حتمی فیصلے آنے تک 2002 کی پاور پالیسی کے تحت عارضی بنیاد پر دی گئی ہے۔

حکم نامے کے مطابق فیول ایڈجسٹمنٹ کی منظوری کے بعد فی یونٹ 29 پیسہ اضافے سے اکتوبر میں 2.9 ارب روپے اور نومبر میں 77 پیسے کے اضافے سے 5.5 ارب روپے کے سرمایے کی توقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’مالی سال 2020 میں گردشی قرضہ 30 فیصد بڑھ کر 21 کھرب 50 ارب روپے ہوگیا‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ اکتوبر میں مجموعی طور پر 10 ہزار 242 گیگاواٹ آور بجلی پیدا کی گئی جس کی لاگت فی یونٹ 4.11 روپے کے حساب سے 42.2 ارب روپے تھی، 2.46 فیصد ٹرانسمیشن نقصانات سے ڈسکوز کو تقریباً 9.972 گیگاواٹ آور بجلی فی یونٹ 4.33 روپے کے حساب سے 43.2 ارب روپے میں فراہم کی گئی۔

اسی طرح نومبر میں مجمومی طور پر 7 ہزار 479 گیگاواٹ آور بجلی فی یونٹ 3.42 کے حساب سے 25.6 ارب روپے پر پیدا کی گئی، اکتوبر میں نقصان میں 2.64 فیصد اور نومبر میں 3.26 فیصد ہوا۔

نیپرا کے مطابق ٹرانسمیشن کے نقصانات کے بعد ڈسکوز کو فی یونٹ 3.35 روپے کے حساب سے 24.9 ارب روپے کی لاگت سے 7 ہزار 235 گیگاواٹ آور بجلی دی جاسکتی تھی۔

دستاویزات میں دکھایا گیا کہ گرڈ اسٹیشن کو سب سے بڑا حصہ ہائیڈر پاور بجلی کا 31 فیصد تھا جس میں نومبر میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا۔


یہ خبر 12 جنوری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں