اسلام آباد: حکومت پاکستان نے تصدیق کی ہے کہ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے 30 نومبر 2020 تک 23 کھرب 6 ارب روپے ہوگئے ہیں جس میں رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں تقریباً 156 ارب روپے اور ماہانہ 31 ارب 20 کروڑ روپے کی شرح سے اضافہ ہوا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی زیرِ صدارت کابینہ کمیٹی برائے توانائی (سی سی او سی) کا اجلاس ہوا۔

اس اجلاس میں وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ بغیر میٹر اسمارٹ میٹرنگ سسٹم کو کامیابی کے ساتھ ٹیسٹ کیا گیا جسے اب تک بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے نہیں اپنایا ہے۔

مزید پڑھیں: گردشی قرضے کم کرنے کیلئے سخت اقدامات تجویز

اجلاس میں بتایا گیا کہ گردشی قرضوں کے بڑھنے میں ایک بڑا حصہ پبلک سیکٹر میں ناقص حکومتی حکمت عملی ہے۔

یہ بات علم میں آئی کہ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کے 156 ارب روپے کے اضافے میں بجٹ اور بلا بجٹ سبسڈی کی عدم ادائیگی، آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو سود کی ادائیگی میں تاخیر، دیگر مارک اپس اور کے الیکٹرک کی جانب سے ماہانہ اور سہ ماہی نرخ ایڈجسٹمنٹ میں تاخیر ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ موجودہ ٹیرف نوٹیفکیشنز کے مطابق تقریباً 317 ارب روپے کی سبسڈی کی ضرورت ہے، تاہم وزارت خزانہ نے صرف 144 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے اور 177 ارب روپے کا فرق چھوڑ دیا ہے۔

مجموعی طور پر قرضوں میں 300 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے تاہم صارف ٹیرف میں پچھلے سال کے ایڈجسٹمنٹ کے 145 ارب روپے کے باعث یہ قرضہ کم ہوکر رواں والی سال کے ابتدائی 5 ماہ میں صرف 156 ارب روپے ہی رہا۔

یہ بھی پڑھیں: ’مالی سال 2020 میں گردشی قرضہ 30 فیصد بڑھ کر 21 کھرب 50 ارب روپے ہوگیا‘

اس موقع پر پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ گردشی قرضوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ایک سرکلر ڈیبٹ منیجمنٹ پلان لاگو کیا جارہا ہے۔

اس نے بتایا کہ مالی سال 20-2019 کے دوران پاور سیکٹر کا گردیشی قرضہ 538 ارب روپے بڑھا تھا، جس میں ماہانہ اضافے کی شرح 45 ارب روپے تھے۔

پاور ڈویژن کے مطابق گزشتہ مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران یہ قرضہ 36 ارب روپے ماہانہ کی شرح سے 179 روپے بڑھا تھا تاہم رواں مالی اس قرضے میں اضافہ کا سلسلہ کم ہوا ہے اور یہ صرف 156 ارب روپے بڑھا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں