اسامہ قتل کیس: ملزمان نے ایک بے گناہ شہری کی جان لینے کا اعتراف کرلیا، تفتیشی افسر

اپ ڈیٹ 13 جنوری 2021
اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق ہوگیا تھا—فائل فوٹو: شکیل قرار
اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق ہوگیا تھا—فائل فوٹو: شکیل قرار

اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے اہلکاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان اسامہ ستی کے قتل کیس میں تفتیشی افسر نے کہا ہے کہ ملزمان اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کے ہاتھوں بے گناہ شہری کی جان گئی۔

وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں جج راجا جواد عباس نے اسامہ ستی قتل کیس کی سماعت کی، جہاں گرفتار پانچوں ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

ملزمان کو میڈیا سے چھپا کر عقبی دروازے سے عدالت میں لایا گیا، اس دوران سیکیورٹی کے بھی سخت انتظامات نظر آئے۔

دوران سماعت تفتیشی افسر نے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 5 روز کی توسیع کی استدعا کی اور کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ چاہیے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج

انہوں نے کہا کہ ملزمان اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کے ہاتھوں بے گناہ شہری کی جان گئی، جس پر جج نے پوچھا کہ کیا آپ نے ملزمان کا بیان قلمبند کر لیا ہے، اس پر تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ تاحال ملزمان کا مجسٹریٹ کے سامنے بیان قلمبند نہیں ہو سکا۔

بعد ازاں عدالت نے تفتیشی افسر کی ملزمان کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا منظور کرلی۔

وزیر داخلہ کا اسامہ ستی کے والد کو فون

دوسری جانب وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اسامہ ستی کے والد ندیم ستی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور واقعہ کے انکوائری رپورٹ سے متعلق بات چیت کی۔

شیخ رشید احمد نے کہا کہ وزارت داخلہ کی طرف سے انکوائری کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ دیکھ لیں، اگر آپ مطمئن ہیں تو اس رپورٹ کو آگے بھجوایا جائے گا۔

وزیر داخلہ نے انہیں بتایا کہ وزیراعظم اور کابینہ کا فیصلہ ہے کہ اسامہ ستی کے والد جس طرح تحقیقات کروانا چاہیں، حکومت پوری مدد کرے گی۔

انہوں نے ندیم ستی سے کہا کہ اگر آپ نے ہائیکورٹ کے جج سے انکوائری کروانی ہے تو میں آپ کے جواب کا منتظر ہوں، آپ آگاہ کریں گے تو وزارت داخلہ کی طرف سے وزارت قانون کو خط لکھوں گا۔

ٹیلی فونک گفتگو میں شیخ رشید کا کہنا تھا کہ تحقیقات سے آپ کا مطمئن ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے، اسامہ کا واقعہ بہت بڑا اور قابل مذمت ہے، حکومت آزادانہ اور مکمل تحقیقات کے ہمیشہ لیے تیار ہے کیونکہ ہماری اولین ترجیح ہے کہ آپ اور آپ کا خاندان مطمئن ہو۔

اسامہ ستی قتل کیس

واضح رہے کہ 2 جنوری کو اسلام آباد پولیس کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کے 5 اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ایک نوجوان اسامہ ستی کو جاں بحق کردیا تھا۔

بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں نوجوان اسامہ ستی کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ شیخ رشید احمد کو ہدایت کی تھی کہ وہ 24 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کریں۔

مذکورہ واقعے کی ایف آئی آر میں والد ندیم ستی نے مؤقف اپنایا تھا کہ قتل سے ایک دن قبل ان کے بیٹے کا سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اور پولیس اہلکاروں نے اسے مزہ چکھانے کی دھمکی دی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق 2 جنوری کی رات 2 بجے جب اسامہ سیکٹر ایچ-11 میں ایک دوست کو چھوڑ کر واپس آرہا تھا تو پولیس حکام نے اس کی گاڑی کو روکا اور چاروں طرف سے فائر کیے جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔

تاہم پولیس کے ترجمان کے بیان میں یہ کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کو تقریباً ڈیڑھ بجے کال موصول ہوئی کہ سفید گاڑی میں موجود کچھ ڈکیت سیکٹر ایچ-13 تھانہ شمس کالونی کی حدود میں ڈکیتی کرکے آرہے ہیں، اطلاع موصول ہونے پر پیٹرول ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے ردعمل دیا اور سیاہ شیشوں والی سوزوکی کار کو روکنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: اسامہ ستی قتل: 'ڈیوٹی آفیسر نے قصورواروں کو بچایا اور جرم چھپایا'، رپورٹ

بیان میں کہا گیا تھا کہ تاہم پولیس حکام کی جانب سے متعدد مرتبہ کہنے کے باوجود ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی، جس پر پولیس اہلکاروں نے 5 کلومیٹر تک اس کا پیچھا گیا لیکن ڈرائیور نے گاڑی ہلکی نہیں کی، بالآخر پولیس نے گاڑی پر فائر کیے لیکن بدقسمتی سے وہ ڈرائیور کو لگے اور وہ زخمی ہوگیا۔

اس بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) محمد عامر ذوالفقار خان نے فوری طور پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی آئی جی وقار الدین سید کو سونپی گئی اور سب انسپکٹر افتخار احمد اور کانسٹیبلز مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد اور محمد مصطفیٰ کی گرفتاری کا حکم دیا۔

بعدازاں اسامہ ستی کے قتل سے متعلق تمام ریکارڈ سینئر افسران کی ہدایت کے تحت اسلام آباد پولیس نے سیل کردیا گیا تھا، پولیس افسران نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا تھا کہ ریکارڈ سیل کردیے گئے ہیں کیونکہ اس میں تضاد ہے۔

6 جنوری کو انسداد دہشت گردی عدالت نے نوجوان اسامہ ستی قتل کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر کے بیان پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم سب ملے ہوئے ہو اور ساتھ ہی ملزمان کا 7 روزہ ریمانڈ منظور کر لیا تھا۔

بعد ازاں 8 جنوری 2021 کو سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد نے قتل کیس میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی کے پانچوں اہلکاروں کو برطرف کردیا تھا۔

جس کے بعد 11 جنوری کو اسامہ ستی قتل کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ مکمل کی گئی تھی جس میں متعلقہ ایس پی اور ڈی ایس پی کے خلاف کارروائی کی بھی سفارش کی گئی تھی۔

ساتھ ہی عدالتی تحقیقات میں کہا گیا تھا کہ انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے عہدیداروں کو سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کی اجازت کے بغیر کبھی بھی مشترکہ طور پر باقاعدہ فورس کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہیے، ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس واقعے کے بعد ڈیوٹی آفیسر نے قصورواروں کو بچایا اور جرم چھپایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں