اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیپٹل ڈیوپلمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے پاکستان تحرک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما علیم خان کی غیر قانونی قرار دی گئی ہاؤسنگ سوسائٹی ‘پارک ویو’ کو جاری نو ابجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) کو منسوخ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹر ریجنل پلاننگ عبدالحق بروہی کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے پارک ویو ہاؤسنگ سوسائٹی کو جاری کردہ این او سی منسوخ کردی ہے’۔

مزید پڑھیں: وزیر نے کس طرح سرکاری اراضی پر سڑک تعمیر کی، چیف جسٹس اطہر من اللہ

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ہاؤسنگ اسکیمز سے متعلق جاری کردہ تمام ہدایات پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کیا جائے گا۔

حال ہی میں عدالت عالیہ نے اپنے حکم نامے میں سی ڈی اے کے حوالے سے کہا تھا کہ ادارہ اسلام آباد میں زمینوں کے نگران طور پر کام کررہا ہے اور مذکورہ سوسائٹی کا کیس، اعتماد کی خلاف ورزی کا واضح کیس ہے، جس میں وہ اپنی قانونی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام رہا۔

خیال رہے کہ سوسائٹی کو سی ڈی اے کی زمین پر، جو سڑک کے لیے مختص تھی، کو تعمیرات میں استعمال کی اجازت دیتے ہوئے این او سی جاری کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'قانون کی عملداری کیلئے بے ضابطگیوں کو ریگولرائز کرنے کی روایت ختم کرنی ہوگی'

اسلام آباد کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے حکم میں نجی سوسائٹی کی سرکاری اور نجی زمین پر تجاوزات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کیس انسداد بد عنوانی کے لیے مختص اداروں کے دائر اختیار میں آتا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ پارک ویو سٹی کو جاری کی جانے والی این او سی واضح طور پر اختیارات کا غلط استعمال اور غیر قانونی ہے، جو کسی قانونی اتھارٹی اور حدود کے بغیر جاری کی گئی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ‘اس طرح قبضہ کرکے زمین کا حصول اختیارات کا غلط استعمال ہے اور یہ پاکستان کی عوام کی جانب سے بطور نگران اتھارٹی کے ذمہ دارانہ فرائض سے روح گردانی ہے'۔

مزید پڑھیں: ہاؤسنگ سوسائٹی بناتے ہوئے علیم خان نے سرکاری اراضی پر تجاوزات قائم کیں، سی ڈی اے کی تصدیق

عدالت نے نشاندہی کی کہ این او سی جاری کرنے کے لیے بنائی گئی سمری نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ یہ اختیارات کا غلط استعمال بھی ہے، مزید یہ کہ ستم ظریفی ہے کہ مفاد عامہ کی قیمت پر نجی منافع کمانے والے ادارے کو فائدہ پہنچانے کے لیے غلط اقدام اٹھایا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم میں کہا کہ اس سمری میں مذکورہ مقام کے قدرتی مناظر کی نوعیت اور اس کے غیر قانونی نقصان کو بھی چھپایا گیا ہے۔


یہ رپورٹ 13 جنوری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں