سینیٹ کے انتخابی عمل کیلئے قانون سازی، فافن نے جلد بازی پر حکومت کو خبردار کردیا

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2021
کسی بھی کھلی رائے شماری کی اجازت دینے کے لیے کسی آئینی ترمیم میں جلد بازی کا مظاہرہ کرنا غیر دانشمندانہ سمجھتے ہیں، فافن - فائل فوٹو:اے پی پی
کسی بھی کھلی رائے شماری کی اجازت دینے کے لیے کسی آئینی ترمیم میں جلد بازی کا مظاہرہ کرنا غیر دانشمندانہ سمجھتے ہیں، فافن - فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: آزاد اور منصفانہ الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو سینیٹ کے انتخابی عمل میں اصلاحات کے بارے میں مشاورت سے اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے نہ کہ صحیح اور غلط کو دیکھے بغیر قانون سازی میں جلد بازی کرنی چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیان میں کہا گیا ہے 'فافن کسی بھی کھلی رائے شماری کی اجازت دینے کے لیے کسی آئینی ترمیم میں جلد بازی کا مظاہرہ کرنا غیر دانشمندانہ سمجھتا ہے جس کے انتخابات کے لیے صرف ایک ماہ باقی ہے'۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب حکومت سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹنگ کے لیے ایک بل پیش کرنے کے لیے تیار ہے اور اپوزیشن اس خیال کے بارے میں غلطیاں تلاش کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق ریفرنس پر چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اسمبلیز، الیکشن کمیشن کو نوٹس

فافن کے مطابق اگر وفاقی حکومت اس رویے کو اپنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس معاملے میں اسے محتاط جائزہ لینا چاہیے کہ آئین کے آرٹیکل 59 اور 226 میں ترمیم کے ذریعے موجودہ تجویز سے سینیٹ انتخابات میں رقم کا استعمال، شفافیت اور ہارس ٹریڈنگ میں کمی لانے کا مقصد کو پورا ہوا یا نہیں۔

یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم جو قومی اسمبلی کے پاس اکتوبر 2020 سے زیر التوا ہے، سینیٹ انتخابات میں ووٹ کے خریدے جانے میں کوئی مضبوط رکاوٹ نہیں ڈالتی ہے کیونکہ اس میں پارٹی اور قومی اسمبلی کے ارکان پارلیمنٹ کے خلاف ووٹ ڈالنے پر کسی جرمانے کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

فافن نے تجویز دی کہ متعلقہ شقوں میں ووٹنگ کے خلاف تعزیری دفعات شامل کرکے مجوزہ ترمیم کو مزید بامقصد بنایا جاسکتا ہے۔

فافن نے تجویز پیش کی کہ سیاسی جماعتوں کو مزید جمہوری انداز اپنانا چاہیے۔ اس میں سینیٹ کے لیے براہ راست انتخابی طریقہ کار کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

اس کے سابق چیئرمین مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ نے 31 دسمبر 1972 کو قومی اسمبلی میں کمیٹی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'سینیٹ میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی اسی تناسب سے ہونی چاہیے جیسے ان کی نمائندگی صوبائی اسمبلی میں ہوتی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت کی منظوری سے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کیلئے ریفرنس دائر

فافن نے اسی تناسب سے سینٹ میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کی عکاسی کرنے کے لیے ایک سیدھا سادا طریقہ تجویز کیا جس طرح صوبائی اسمبلی میں تھا۔

غیر شفافیت

دریں اثنا سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے رہنما میاں رضا ربانی نے واضح کیا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں غیر شفافیت کا دفاع نہیں کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات پر مسلم لیگ (ن) منقسم

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اکتوبر 2020 میں وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں 26 ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا جس میں انہوں نے 'قابل منتقل ووٹ' کے الفاظ کی جگہ 'اوپن بیلٹ' کے الفاظ کو تبدیل کرنے کے لیے آرٹیکل 59 (2) میں ترمیم کی درخواست کی اور اس کے علاوہ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب صدارتی ریفرنس زیر التوا تھا انہوں نے بل پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سوال کہ وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اور آئین کے تحت صحیح طور پر یہ بل پیش کیا گیا ہے، اہم سوال بن گیا ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں