سینیٹ انتخابات پر مسلم لیگ (ن) منقسم

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2021
سینیٹ کے 52 اراکین مارچ میں اپنی 6 سالہ مدت پوری کر رہے ہیں — فائل فوٹو: اے پی پی
سینیٹ کے 52 اراکین مارچ میں اپنی 6 سالہ مدت پوری کر رہے ہیں — فائل فوٹو: اے پی پی

لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) آنے والے سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے پر منقسم دکھائی دے رہی ہے چونکہ ایک گروپ کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے مؤقف کہ حکمران جماعت کے لیے میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے کی حمایت کی جارہی ہے جبکہ دیگر پارٹی کے معمولی فائدے کو دیکھتے ہوئے بائیکاٹ کی حمایت کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی قیادت میں موجود پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار کے ایوانوں سے نکالنے کے لیے دباؤ قائم کرنے کے حصے کے طور پر اب تک مسلم لیگ (ن) تمام منتخب ایوانوں سے استعفے دینے اور کسی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا مطالبہ کرتی آرہی ہے۔

تاہم بعد ازاں اس نے اپنے مؤقف میں اس وقت لچک دکھانے کا اشارہ دیا جب پیپلزپارٹی نے ایوان بالا کو پی ٹی آئی کے لیے کھلا چھوڑنے پر 18 ویں ترمیم کے رول بیک (واپسی) پر محتاط دکھائی دی اور یہ تجویز دی کہ اپوزیشن جماعتوں کو میدان میں رہنا چاہیے اور سینیٹ انتخابات کے لیے اپنے امکانات کو بہتر بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کی مختلف نشستوں پر ضمنی انتخابات میں حصہ لینا چاہیے۔

مزید پڑھیں: آئین کے تحت سینیٹ انتخابات 10 فروری سے قبل ممکن نہیں، ای سی پی

ادھر مسلم لیگ (ن) کے مختلف بڑوں کے ساتھ پس منظر میں کیے گئے انٹرویوز میں یہ انکشاف ہوا کہ نائب صدر مریم نواز کے کچھ قریبی لوگ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔

یہ انتخابات مارچ کے پہلے 15 دنوں میں تب متوقع ہے جب 104 سینیٹرز میں سے 52 کی 6 سالہ مدت پوری ہورہی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں اپنی (165 ایم پی ایز) کی موجودہ طاقت کے ساتھ جماعت پنجاب کے لیے ایوان بالا کی 4 جنرل نشستیں جیت سکتی ہے (کیونکہ سینیٹ انتخابات کے لیے صوبائی اسمبلیاں الیکٹورل کالج کے طور پر کام کرتی ہیں)۔

ادھر مارچ میں اپنی 6 سالہ مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہونے والوں میں مسلم لیگ (ن) کے راجا ظفر الحق، پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان شامل ہیں، لہٰذا یہ پارٹی کی قیادت کے لیے مشکل ہوسکتا ہے کہ وہ پارٹی کے لیے ان کی خدمات کو نظرانداز کریں اور انہیں اگلی مدت کے لیے ٹکٹس ایوارڈ نہیں کریں۔

وہیں باقی رہ جانے والی ایک نشست کے لیے پنجاب اور دیگر صوبوں سے مختلف لوگوں کو بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں۔

مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ سینیٹ انتخابات میں پنجاب کے کوٹہ سے مشاہد اللہ خان، نہال ہاشمی اور سلیم ضیا کو شامل کیا تھا جو کراچی سے تعلق رکھتے تھے تاہم انہوں نے انتخابی مقابلے کے لیے اہل بننے کے لیے اپنے ووٹوں کو بالترتیب پنجاب کے شہروں راولپنڈی، جہلم اور مری منتقل کرالیا گیا۔

اسی طرح ہی آنے والے مقابلے کے لیے مختلف رہنماؤں نے اپنے ووٹس پنجاب منتقل کرا لیے ہیں اور وہ مقابلے لیے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے قیادت کے ساتھ لابنگ کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے مقرر

تاہم اس قدم کی مخالفت کرنے والے زیادہ تر نمائندے پنجاب سے ہیں اور ان کی سربراہی شیخوپورہ سے ایک پارلیمنٹیرین کی جانب سے کی جارہی جو یہ نکتہ پیش کرتے ہیں کہ اگر سینیٹ انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو پارٹی کو اتنا زیادہ نقصان نہیں ہے، وہ زور دیتے ہیں کہ یہاں تک کہ پنجاب سے 4 جنرل نشستیں جیتنے کے بعد وہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا منصب برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

مزید یہ کہ ان کے مطابق اگر پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹانے کے نتیجے میں اقتدار میں آنے کے باوجود تمام معاملات میں ایوان بالا میں پیپلزپارٹی اور دیگر کے ساتھ قانون سازی کے لیے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔

لہٰذا ان کا ماننا ہے کہ کہ پارٹی کو دیگر آپشن کو دیکھنے کے بجائے عمران خان کی حکومت کے مستعفی ہونے کے لیے دباؤ ڈالنے کے حصے کے طور پر تمام منتخب ایوانوں سے استعفے دینے کے اپنے اصولی فیصلے پر قائم رہنا چاہیے۔


یہ خبر 04 جنوری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں