سینیٹ انتخابات سے متعلق ریفرنس پر چیئرمین سینیٹ، اسپیکر اسمبلیز، الیکشن کمیشن کو نوٹس

اپ ڈیٹ 04 جنوری 2021
عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات کرانے سے متلعق صدارتی ریفرنس کے معاملے پر پہلی سماعت کے بعد چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلیز، الیکشن کمیشن، وفاقی و صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیے۔

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ/شو آف ہینڈز سے کرانے کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔

اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان نے بتایا کہ آرٹیکل 226 کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، مذکورہ ریفرنس میں سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری سے نہ کرنے کا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مارچ میں ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں 65 فیصد اپوزیشن اراکین شامل

انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 226 کا اطلاق صرف آئین کے تحت ہونے والے انتخابات پر ہوتا ہے، جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عدالت اس تضاد میں کیوں پڑے۔

سماعت کے دوران عدالتی بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق آئین و قانون کے تحت انتخابات کا مختلف طریقہ کار ہے، آپ چاہتے ہیں عدالت آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات میں فرق واضح کرے۔

ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ کیا قومی اسمبلی کا انتخاب آئین کے تحت نہیں ہوتا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عام انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوئے، آئین کے تحت نہیں۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں سینیٹ اور اسمبلی انتخابات کا ذکر ہے، مقامی حکومتوں کے انتخابات کا آئین میں ذکر نہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کیسے ہونے ہیں یہ بات الیکشن ایکٹ میں درج ہوگی، الیکشن ایکٹ بھی آئین کے تحت ہی بنا ہوگا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کیا کوئی قانون آئین سے بالاتر ہوسکتا ہے؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئین یا قانون میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے، سینیٹرز صوبوں کے نمائندے ہوتے ہیں، سینیٹرز کو منتخب کرانے والے ووٹرز اپنی سیاسی جماعتوں کو جواب دہ ہیں۔

بعد ازاں کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے الیکشن کمیشن اور الیکٹرورل کالج کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چاروں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر رہے ہیں، چاروں ایڈووکیٹ جنرلز اور الیکشن کمیشن کے جواب کا جائزہ لیں گے۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے مذکورہ معاملے پر چیئرمین سینیٹ، قومی اسمبلی سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز، الیکشن کمیشن، وفاقی و صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیے۔

مزید یہ کہ اٹارنی جنرل اور دیگر کو اپنی تحریری معروضات جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ نوٹس اخبارات میں بھی شائع کیا جائے تاکہ جو اس معاملے پر رائے دینا چاہے وہ دو ہفتوں میں تحریری معروضات عدالت میں جمع کرائے۔

علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سینئر ایڈووکیٹ ہادی شکیل کو عدالت میں پیش ہونے کا کہتے عدالتی معاون کے طور پر طلب کرلیا۔

جس کے بعد کیس کی سماعت 11 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دے دی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا ہے کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: آئین کے تحت سینیٹ انتخابات 10 فروری سے قبل ممکن نہیں، ای سی پی

یاد رہے کہ 15 دسمبر کو وفاقی حکومت نے سینیٹ انتخابات فروری میں کروانے اور اوپن بیلٹ کے معاملے پر سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ کار لاگو کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے جاری قیاس آرائیوں پر وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ آئین کے تحت 10 فروری سے قبل سینیٹ انتخابات نہیں ہوسکتے۔

یاد رہے کہ پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے 104 اراکین میں سے 52 اراکین اپنی 6 سالہ سینیٹر کی مدت پوری ہونے کے بعد 11 مارچ کو ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔

اگر اعداد و شمار کو دیکھیں تو مارچ میں جو 52 اراکین ریٹائر ہورہے ہیں، ان میں سے 34 کا تعلق اپوزیشن جماعتوں جبکہ 18 حکومتی بینچوں سے ہے۔


اضافی رپورٹنگ: ناصر اقبال

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں