سپریم کورٹ کے عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکالنے کے حکم پر امریکا ’فکرمند‘

اپ ڈیٹ 03 فروری 2021
سپریم کورٹ نے 2 فروری کو احمد عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکالنے کا حکم دیا تھا — فائل فوٹو: اے پی
سپریم کورٹ نے 2 فروری کو احمد عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکالنے کا حکم دیا تھا — فائل فوٹو: اے پی

امریکا نے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی جانب سے ڈینیئل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کو منتقل کرنے کے حکم پر 'فکرمند' ہے۔

واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے کہا کہ 'امریکا کو ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل میں ملوث افراد کے مقدمات میں ہوئی پیش رفت پر گہری تشویش ہے'۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے احمد عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکالنے اور سیکیورٹی کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں رکھنے کا حکم دیا تھا جہاں ان کے اہلِ خانہ بھی صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ: ڈینیئل پرل کیس کے ملزم عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکالنے کا حکم

البتہ عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ عمر شیخ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت نہ دی جائے اور ان کے خاندان کو سرکاری خرچ پر رہائش اور ٹرانسپورٹ فراہم کیا جائے۔

پاکستان میں عدالت عظمیٰ کے اس حکم پر ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ 'ہم جیل سے عمر شیخ اور ان کے شریک سازشیوں کو منتقل کرنے کے حالیہ حکم کے حوالے سے فکر مند ہیں'۔

امریکی عہدیدار نے دہرایا کہ 29 جنوری کو امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلِنکن اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس سلسلے میں گفتگو کی تھی کہ 'سزا یافتہ عمر شیخ اور امریکی شہری اور صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے دیگر ذمہ داران کے لیے احتساب کس طرح یقینی بنایا جائے'۔

مزید پڑھیں: امریکا کی عمر شیخ کے خلاف قانونی کارروائی کی پیشکش

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ 'عدالتی فیصلے پاکستان سمیت ہر جگہ دہشت گردی کے متاثرین کی توہین ظاہر کرتے ہیں' ساتھ ہی اسلام آباد کی جانب سے قتل میں ملوث افراد کا ان کے اقدامات پر احتساب یقینی بنانے کی کوششوں کو بھی سراہا۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ 'امریکا، پاکستان کی جانب سے عمر شیخ اور اس کے شریک سازشیوں کا احتساب کرنے اور ان کو قید میں رکھنے کی ماضی میں کی گئی کوششوں کا اعتراف کرتا ہے'۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'ہم حکومت کی جانب سے 28 جنوری کے (عدالتی) فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست کو بھی تسلیم کرتے ہیں'۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ملزم عمر شیخ پر دہشتگردی کے الزامات کا جواب طلب

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔

تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔

یہ بھی پڑھیں:ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ نے ملزمان کی بریت کے خلاف نظرِثانی اپیل دائر کردی

تاہم 25 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے چاروں ملزمان کو زیر حراست رکھنے کے لیے صوبائی حکام کے جاری کردہ 'پریوینشن ڈیٹینشن آرڈرز' کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

جن پر 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے ایک کے مقابلے 2 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے مقدمے کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعدازاں 2 فروری کو عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے عمر شیخ کی جانب سے رہائی کے باوجود بدستور قید کے خلاف دائر درخواست پر احمد عمر شیخ کو ڈیتھ سیل سے نکالنے اور سیکیورٹی کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں رکھنے کا حکم دیا تھا جہاں ان کے اہلِ خانہ بھی صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ عمر شیخ کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت نہ دی جائے اور ان کے خاندان کو سرکاری خرچ پر رہائش اور ٹرانسپورٹ فراہم کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں