ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ نے ملزمان کی بریت کے خلاف نظرِثانی اپیل دائر کردی

اپ ڈیٹ 29 جنوری 2021
ڈینیئل پرل کیس کے ملزمان کی رہائی پر امریکا نے قانونی کارروائی کی پیشکش کی تھی—فوٹو: ڈان آرکائیو
ڈینیئل پرل کیس کے ملزمان کی رہائی پر امریکا نے قانونی کارروائی کی پیشکش کی تھی—فوٹو: ڈان آرکائیو

ایک حکومتی پراسیکیوٹر کے مطابق وکلا نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کی سازش کے مجرم برطانوی نژاد عسکریت پسند احمد عمر شیخ کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی آخری کوشش کے طور پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ انہوں نے اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے حکم پر نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ڈینیئل پرل قتل کیس میں احمد عمر سعید شیخ اور دیگر 3 ملزمان کو کلیئر قرار دینے کے فیصلے کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی عمر شیخ کے خلاف قانونی کارروائی کی پیشکش

مذکورہ فیصلے نے امریکا کو برہم کردیا تھا جبکہ ہنگامی اختیار استعمال کرکے اس گروپ کو جیل میں رکھنے والی حکومت سندھ اور عدالتوں کے درمیان قانونی جنگ کو توسیع دی تھی۔

پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ 'فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے پٹیشن دائر کی گئی اور عدالت سے بریت کے فیصلے کو واپس لینے کی استدعا کی گئی ہے'۔

ملزم عمر شیخ کراچی کی سینٹرل جیل میں قید ہے جہاں کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ انہیں باضابطہ طور پر عدالت سے رہائی کے احکامات موصول نہیں ہوئے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ کا مرکزی ملزم عمر شیخ کی رہائی کا حکم

شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر عہدیدار نے مزید کہا کہ 'جیسے ہی ہمیں احکامات موصول ہوں گے ہم اس پر عملدرآمد کریں گے'۔

امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلِنکین نے عدالتی فیصلے کے بعد ایک بیان جاری کرتے ہوئے پیشکش کی تھی کہ 'امریکی شہری کے خلاف عمر شیخ کے ہولناک جرم پر ہم امریکا میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہیں'۔

سیکریٹری آف اسٹیٹ نے یہ بھی کہا کہ 'ہم ڈینیئل پرل کے اہلِ خانہ کے لیے انصاف حاصل کرنے اور دہشت گردوں کا احتساب کرنے کے لیے پر عزم ہیں'۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔

تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر

چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔

تاہم 25 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے چاروں ملزمان کو زیر حراست رکھنے کے لیے صوبائی حکام کے جاری کردہ 'پریوینشن ڈیٹینشن آرڈرز' کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

جن پر 28 جنوری کو سپریم کورٹ نے ایک کے مقابلے 2 کی اکثریت سے مقدمے کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں