قوانین بنانے میں تاخیر، کراچی میں کتا مار مہم جاری

اپ ڈیٹ 08 فروری 2021
ایسے معاشرے میں جانوروں کی پرواہ کرتا ہے جہاں انسانوں کی اکثریت زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے، مقامی افراد - فائل فوٹو:
ایسے معاشرے میں جانوروں کی پرواہ کرتا ہے جہاں انسانوں کی اکثریت زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے، مقامی افراد - فائل فوٹو:

کراچی: جہاں صوبہ سندھ میں گزشتہ چند سالوں سے کتوں کے کاٹنے کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے وہیں صوبائی حکومت یکساں مقامی حکومت کے قوانین بنانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت کی 'بے حسی' میونسپلٹیز کے بڑے پیمانے پر کتوں کو مارنے کے طریقہ کار کو جاری رکھنے کا باعث ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ حالیہ بڑے پیمانے پر کتے مارنے کی مہم ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فیز 5 اور 8، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقوں میں ہوئی جہاں بہت سے کتوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: اگر کتا حملہ کردے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟

چند اطلاعات ایسی موصول ہوئیں جس کے مطابق میونسپلٹی کے عملے نے ایک ہی کتے کو مارنے کے لیے متعدد گولیاں چلائیں۔

کلفٹن کے رہائشی نے کہا کہ 'حکام کو کسی بھی جانور کی جان لینے میں انتقامی کارروائی، کسی قسم کے رد عمل یا مزاحمت کا خوف نہیں ہے، کون ایسے معاشرے میں جانوروں کی پرواہ کرتا ہے جہاں انسانوں کی اکثریت زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے؟'

کھلی کچرا کنڈی

ذرائع نے اشارہ دیا کہ کس طرح مہذب برادریوں میں بڑے پیمانے پر جانوروں سے بچاؤ کے قطرے پلانے اور پیدائش پر قابو پانے کے ایک پروگرام کے ذریعے کمیونٹیز میں آوارہ کتوں کے مسئلے سے نمٹا گیا ہے اور کہا کہ حکام ایسے طریقوں کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کتے کی آبادی کھلے کچرے کے ڈھیروں والے علاقوں میں پروان چڑھتی ہے اور تجویز کی جاتی ہے کہ آوارہ کتوں والے رہائشی علاقوں میں ریبیز کی منتقلی سمیت مختلف بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر کتا کاٹ لے تو انفیکشن سے بچنے کیلئے کیا کریں؟

انڈس ہسپتال میں شعبہ متعدی امراض اور ریبیز فری پاکستان پروجیکٹ (آر ایف پی) کے سربراہ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین، جو کتے کے کاٹنے کے علاج معالجے کا ایک مرکز بھی چلاتے ہیں، کا کہنا تھا کہ 'کوڑا کرکٹ صاف کریں اور پھر کتوں کے پاس اتنا کھانا نہیں ہوگا اور وہ اتنی تیزی سے دوبارہ تولید نہیں کریں گے، یہ جانوروں کے ڈاکٹروں میں عام تاثر ہے'۔

مقامی قوانین بنانا

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 ایک ایسا نظام متعارف کرانے کی گنجائش فراہم کرتا ہے جو آوارہ جانوروں سے تحفظ فراہم کر سکے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

تاہم حکومت نے آٹھ سالوں سے آوارہ اور ’خطرناک جانوروں‘ کے حوالے سے ابھی تک پابندی نہیں عائد کی ہے اور اس حوالے سے عدالت میں ایک کیس زیر التوا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ فی الحال آوارہ جانوروں سے متعلق صوبے بھر میں یکساں قوانین موجود نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کنٹونمنٹ ایکٹ 1924 کے ایکٹ کے تحت جانوروں کے قبضے اور اس کو ہلاک کرنے کی اجازت دی گئی ہے جس میں کسی بیماری یا ایسے کتے جو بغیر کسی کالر کے ہوں یا پھر ان پر نجی ملکیت کا کوئی اور نشان نہ ہو'۔

مزید پڑھیں: کتے بے شک نہ ماریں، مگر انسان تو بچالیں!

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ممبر ایڈووکیٹ طارق منصور نے عوامی دلچسپی کی قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اس کیس کی پیروی کرتے ہوئے کہا کہ 'ہمیں مقامی حکومت کے ایکٹ کے تحت مقامی قوانین کی ضرورت ہے تاکہ عہدیداروں کو مخصوص فرائض تفویض کیے جائیں اور ان کے لیے وہ جوابدہ ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'عدالت کے احکامات سے صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں انسداد ریبیز ویکسین کے مفت ٹیکے کی فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد ملی'۔

اس معاملے کے نتیجے میں حکومت نے گزشتہ سال ایک ایسے پروگرام کا اعلان بھی کیا جس میں بنیادی طور پر آوارہ کتوں کی ویکسینیشن اور نس بندی پر توجہ دی گئی تھی تاہم اس کا آپریشنل ہونا ابھی باقی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں