مخالفت کے باوجود خیبرپختونخوا کا ٹرانسمیشن کمپنی کے لیے لائسنس پر زور

اپ ڈیٹ 08 فروری 2021
دونوں اہم وفاقی اداروں نے خیبر پختونخوا ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ سسٹم کمپنی کے ٹرانسمیشن لائسنس کی مخالفت کی تھی۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی
دونوں اہم وفاقی اداروں نے خیبر پختونخوا ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ سسٹم کمپنی کے ٹرانسمیشن لائسنس کی مخالفت کی تھی۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: خیبرپختونخوا حکومت وفاقی اداروں کے اعتراضات کا مقابلہ کرتے ہوئے ٹرانسمیشن اور گرڈ سسٹم کے لائسنس پر زور دے رہی ہے تاکہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے تقریباً 7 ہزار 300 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈیسپچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) دونوں اہم وفاقی اداروں نے خیبر پختونخوا ٹرانسمیشن اینڈ گرڈ سسٹم کمپنی (کے پی ٹی جی سی) کے ٹرانسمیشن لائسنس کی مخالفت یہ کہتے ہوئے کی تھی کہ موجودہ قانون میں ملک میں صرف ایک سسٹم آپریٹر کی اجازت دی گئی ہے اور یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 154 کے تحت ہے لہذا پالیسی فیصلے کا آغاز مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے فورم سے ہونا ہے۔

مزید پڑھیں: اہم وفاقی اداروں نے خیبرپختونخوا کی کمپنی کو لائسنس دینے کی مخالفت کردی

تاہم خیبر پختونخوا کی حکومت نے ان دعووں کو ترقی پذیر بجلی کی مارکیٹ کی قانونی، تکنیکی اور مالی بنیادوں پر مقابلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ حالیہ ملک گیر بجلی کے بریک ڈاؤن جیسے واقعات کے پیش نظر کے پی ٹی اینڈ جی ایس سی کو ملک کی بجلی کی منڈی کی حمایت اور قومی گرڈ کو مستحکم کرنے میں مدد کے لیے جلد ہی قائم کرنا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ وفاقی ادارے بظاہر سی سی آئی کے کام اور اختیارات کے بارے میں جان بوجھ کر الجھن پیدا کررہے ہیں کہ کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وفاقی قوانین کی فہرست (بشمول بجلی) کے پارٹ ٹو میں درج معاملات سے متعلق پالیسیاں مرتب کرے اور ان کو کنٹرول کرے لیکن یہ قانون سازی نہیں کرسکتا کیونکہ آئین کے آرٹیکل 70 کے تحت پارلیمنٹ کا حق ہے۔

ان اعلیٰ اور غیر تسلی بخش اختیارات کی وجہ سے پارلیمنٹ نے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کی تھی جس میں ایک صوبائی گرڈ کمپنی کے قیام کی اجازت دی گئی تھی اور نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کو ٹرانسمیشن اور گرڈ لائسنس جاری کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بجلی کے شعبے میں بڑی تبدیلوں کا منصوبہ

کے پی حکومت نے کہا کہ وفاقی اداروں نے 'گمراہ کن نظریہ' اپنایا ہے کہ نیپرا ایکٹ کے سیکشن 18 اے اس وقت فعال ہونا چاہیے جب حکومت کی نئی پالیسی کا اعلان ہوا۔

اس نے استدلال کیا کہ این ٹی ڈی سی اور سی پی پی اے کی مخالفت کی بنیاد پر این ٹی ڈی سی کا لائسنس معطل کیا جانا چاہیے جب تک کہ اس طرح کی کوئی پالیسی مرتب نہیں کرلی جاتی کیونکہ این ٹی ڈی سی بغیر پالیسی کے ٹرانسمیشن لائنز چلارہی ہے اور یہ سندھ ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے ٹرانسمیشن سسٹم (ایس ٹی ڈی سی) جو ایک صوبائی ادارہ ہے، کے ساتھ مربوط ہے۔

اس کے علاوہ این ٹی ڈی سی کا ٹرانسمیشن سسٹم کے الیکٹرک کے ٹرانسمیشن نیٹ ورک سے منسلک تھا جو ایک نجی کمپنی ہے۔

کے پی حکومت نے ریگولیٹر کو لکھا کہ فی الحال صوبے میں عملدرآمد کے مختلف مراحل میں موجود پن بجلی کے مختلف منصوبے اگلے 10-15 سالوں میں تقریبا 7 ہزار 320 میگاواٹ سستی بجلی فراہم کریں گے۔

مزید پڑھیں: بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتکار پریشان

یہ پلانٹس چترال، دیر، کوہستان، سوات اور مانسہرہ میں واقع ہیں۔

چترال اور سوات کے علاقوں سے آدھی بجلی (تقریباً 3 ہزار 500 میگاواٹ) کا انخلا خیبر پختونخوا کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ تجارتی آپریشن کی تاریخیں (سی او ڈی) 2027 تک پختہ ہوں گی۔

تاہم خیبر پختونخوا حکومت کو بدقسمتی سے این ٹی ڈی سی کی جانب سے غیر معینہ تاخیر کا سامنا رہا جو اس کی اپنی رکاوٹیں تھیں۔

اول، این ٹی ڈی سی نے پیداواری صلاحیت کی توسیع کے منصوبوں (آئی جی سی ای پی) کی ہدایات، جو حکومت کی ہدایات اور ترجیحات کے ساتھ جڑے ہیں، کے مطابق بجلی کے انخلا کی طرف توجہ مرکوز کی تھی۔

دوم، مناسب ٹرانسمیشن کوریڈورز کی تلاش کے لیے مشکل شمالی علاقوں میں بھی این ٹی ڈی سی کی داخلی حدود کے علاوہ قومی سطح پر میگا ہائیڈرو پاور پروجیکٹس میں تاخیر ہوئی۔

کے پی حکومت نے 2003 میں سسٹم آپریٹر لائسنس حاصل کرنے پر این ٹی ڈی سی کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن ہنگامی صورتحال اور مارکیٹ کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب نیٹ ورک میں توسیع، کنٹرول اور ڈسپیچ میکانزم رکھنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا۔

ملک بھر میں حالیہ بلیک آؤٹ کا حوالہ دیتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت نے کہا کہ اگر کے پی ٹی اینڈ جی ایس سی مکمل طور پر آپریشنل ہوتا تو 7 ہزار 322 میگاواٹ کا نصف حصہ اپنے نیٹ ورک کو جدید ٹیکنالوجی کی مددسے 'آئی لینڈ موڈ' میں ڈال کر بریک ڈاؤن کو روک سکتا تھا اور فوری بحالی میں مدد فراہم کرسکتا تھا۔

اس نے زور دیا کہ این ڈی ٹی سی کے منصوبوں کے تحت بجلی کے انخلا میں تاخیر سے کے پی کے بجلی کی توسیع کے منصوبوں کو ایک بہت بڑا دھچکا لگے گا کیونکہ سرمایہ کاروں کی جانب سے لگائے جانے والے لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری غیر نتیجہ خیز ہوجائے گی اور سرمایہ کاروں کو برسوں تک کوئی منافع نہیں ملے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں