سپریم کورٹ سے ریفرنس مسترد ہوا تو اوپن ووٹ کیلئے جاری آرڈیننس ’ختم‘ ہوجائے گا، حکومت

اپ ڈیٹ 08 فروری 2021
بابراعوان وزیراعظم کے مشیر ہیں — فائل فوٹو: فہد چوہدری
بابراعوان وزیراعظم کے مشیر ہیں — فائل فوٹو: فہد چوہدری

اسلام آباد: آئندہ سینیٹ انتخابات میں اوپن ووٹ کے لیے الیکشنز (ترمیمی) آرڈیننس 2021 جاری کرنے پر اپوزیشن جماعتوں کی سخت تنقید کے دوران ہی وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے واضح کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس کی حمایت نہیں کرتی تو آرڈیننس فوری طور پر ختم ہوجائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے ساتھی نے ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت نے صدارتی آرڈیننس سن سیٹ کلاز کے ساتھ متعارف کروایا ہے جو اس وقت خود ختم ہوجائے گا اگر صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اوپن بیلٹ کے خلاف اور سینیٹ انتخابات سے قبل آتا ہے۔

واضح رہے کہ 23 دسمبر 2020 کو صدر عارف علوی نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے پر سپریم کورٹ کی رائے مانگنے کی وزیراعظم کی تجویز کو منظور کرلیا تھا تاہم حکومت نے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہفتے کو سینیٹ انتخابات اوپن ووٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس جاری کردیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری

ادھر اپوزیشن نے حکومت پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس ملتوی ہونے کے بعد صرف 2 روز میں ’متنازع‘ آرڈیننس متعارف کروا کر ملک کو آئینی بحران میں ڈالنے کا الزام لگایا۔

اس حوالے سے جب پوچھا گیا کہ آرڈیننس ’جلد بازی‘ میں کیوں جاری کیا گیا تو بابر اعوان کا کہنا تھا کہ حکومت اسے جمعرات (11 فروری) سے قبل متعارف کروانا چاہتی تھی کیونکہ جب الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے سینیٹ انتخابات کے شیڈول کا اعلان متوقع ہے اور ایک مرتبہ شیڈول کا اعلان ہوجائے تو الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے اعتراض کیا کہ حکومت نے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ اور پیسے کے استعمال کے رجحان کو ختم کرنے کے واضح مقصد کے ساتھ بدھ کو آئینی ترمیمی بل پیش کیا تھا لیکن اپوزیشن نے اجلاس کو غنڈہ گردی کرکے خراب کردیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس 3 ہفتوں تک جاری رہا لیکن اپوزیشن نے سینیٹ میں اوپن ووٹ کے خلاف اپنے مؤقف پر جواز پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں کہا۔

پارلیمانی امور کے مشیر کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے 2006 میں دستخط کردہ میثاق جمہوریت کے تحت یہ پارلیمنٹ میں ہارس ٹریڈنگ کے راستے کو روکنے پر راضی ہوئی تھیں لیکن جب حکومت ہارس ٹریڈنگ ختم کرنے کی کوشش کررہی تو یہ دونوں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔

ایک سوال کہ کیوں صدر عارف علوی نے آرڈیننس جاری کیا تو اس پر مشیر کا کہنا تھا کہ صدر نے آرڈیننس جاری کرکے کوئی آئینی اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت صدر پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔

یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ ’پاکستان کی مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) ہوگی جو صدر اور 2 ایوانوں پر مشتمل ہوگی جنہیں بالترتیب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے طور پر جانا جائے گا‘۔

دوسری جانب اس پیش رفت سے جڑے ایک ذرائع کا کہنا تھا کہ آرڈیننس جاری کرنے کا مشورہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی جانب سے پیش کیا گیا تھا اور وزیراعظم عمران خان نے اس کی توثیق کی تھی، یہی نہیں بلکہ وزیر قانون فروغ نسیم نے بھی اس خیال کی حمایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس

ذرائع نے مزید بتایا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں میں سے کسی نے اس خیال کی مخالفت نہیں کی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کی رائے لینے کی تجویز بھی اٹارنی جنرل کی جانب سے دی گئی تھی۔

علاوہ ازیں اب تک الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے حکومتی قدم پر الیکشن کمیشن مکمل خاموش ہے۔

پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی 52 نشستوں پر انتخابات منعقد ہوں گے چونکہ 104 سینیٹ اراکین میں سے نصف 11 مارچ کو ریٹائر ہورہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں