نجی آپریٹرز کا ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کا غلط استعمال

پاکستان میں سالانہ 80  ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک خرچ ہوتا ہے—فائل/فوٹو: ڈان
پاکستان میں سالانہ 80 ہزار سے ایک لاکھ ڈالر تک خرچ ہوتا ہے—فائل/فوٹو: ڈان

پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ ایک کامیاب کہانی ہے لیکن نجی اور بعض رجسٹرڈ ٹرافی ہنٹنگ آپریٹرز غیر ملکی شکاریوں سے نایاب جنگلی جانوروں کو بچانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے ذرائع نے بتایا کہ آپریٹرز نایاب جنگلی جانوروں کی فہرست غیرملکی شکاریوں کو فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھیں: گلگت بلتستان: کراچی کے رہائشی نے شِگر میں آئی بیکس کا شکار کرلیا

ٹرافی ہنٹنگ کا درست طریقے سے استعمال سے نایاب جنگلی جانوروں کی نسل کی بقا کے لیے مددگار تصور کی جاتی ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ ان کا دفتر شکار کو ریگیولرائز کرنے میں تعاون کرتا ہے تاکہ مقامی کمیونٹیز کی مدد کی جائے۔

قانونی طور پر جن جنگلی جانوروں کے شکار کی اجازت ہے ان میں پنجاب یورئیل جیسی پہاڑی بکریاں، ہمالیائی بھیڑیں، افغان یورئیل اور سندھ آئی بیکس شامل ہیں۔

ٹرافی ہنٹرز کو شکار کے لیے مہنگے پرمٹس کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان میں ہرسال ٹرافی ہنٹرز 80 ہزار ڈالر سے ایک لاکھ ڈالر تک خرچ کرتے ہیں اور اس کی بلند ترین نیلامی کی اجازت ہوتی ہے۔

پاکستان میں غیرملکی شکاریوں کو بھی پرمٹ حاصل کرکے چند مشہور جانوروں کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے، جس کے باعث پاکستان ایک پرکشش ملک ہے۔

سفاری کلب انٹرنیشنل (ایس سی آئی) میں رجسٹرٖڈ شکاری کا کہنا تھا کہ پہاڑوں میں شکار کے لیے پاکستان ایک بہترین جگہ ہے اور مارخوروں کی تین اقسام کا مرکز ہے، آئی بیکس کی دو اقسام ہمالین اور سندھ کے ساتھ ساتھ بھیڑوں کی اقسام، جن میں ہمالین بلیو، بلین فورڈ، افغان اور پنجاب یورئیلز، شامل ہیں۔

ایک اور شکاری کا کہنا تھا کہ کراچی کے شمال مشرق میں دریائے سندھ پر ایک پر فضا مقام میں ہم نے شکار کیا جہاں دیگر کئی جنگلی جانور بھی موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرافی ہنٹنگ: نایاب جانوروں کا ایسا شکار جو نقصاندہ نہیں

ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ ٹرافی ہنٹنگ جانوروں کی نسل کو بچانے کے لیے ایک تصور ہے، جس کے تحت اپنی طبعی عمر کے اختتام پر پہنچنے والے جانوروں کے شکار کی اجازت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بولی سے حاصل ہونے والی رقم سے 20 فیصد حکومت کو حاصل ہوتا ہے اور باقی آمدنی مقامی آبادی میں ترقیاتی کاموں کے لیے خرچ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرافی ہنٹنگ گلگت بلتستان میں کامیاب رہی ہے جہاں مارخور، آئی بیکس اور مارکو پولو بھیڑیں تقریباً ناپید تھے لیکن اور وہ فروغ پا رہے ہیں، جس کا سبب ٹرافی ہنٹنگ ہے۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ چند آپریٹرز کئی جانوروں کے شکار کی اجازت دے رہے ہیں اور ہم اس پر سخت کارروائی کر رہے ہیں کیونکہ ہم وائلڈ فاؤنا اور فلورا کے انٹرنیشنل ٹریڈ این انڈینجرڈ اسپیشز کے معاہدے کا حصہ ہیں، جو کسی بھی جانور کے شکار کا قانون بناتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شکاری غیر قانونی طور پر جانور کو مار دیتا ہے تو مقامی افراد اس کو روک دیتے ہیں۔

خیال رہے کہ ٹرافی ہنٹنگ سیزن نومبر میں شروع ہوتا ہے اور اپریل میں اختتام پذیر ہوجاتا ہے، غیر ملکی، قومی اور مقامی شکاری لائسنس حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان کے محفوظ علاقوں میں ٹرافیز شکار کرتے ہیں۔

گزشتہ برس دسمبر میں امریکی شہری جوزف بریڈ فوڈ نے چترال کے محفوظ قرار دیے گئے علاقے توشی شاشا میں تیر کمان سے 40 انچ کے سینگوں والا کشمیری مارخور کا شکار کر کے تیر کمان سے پہلی ٹرافی ہنٹنگ کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔

ٹرافی ہنٹنگ کا پروگرام 80 کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا جو جنگی حیات کی نایاب نسل کے بین الاقوامی کنوینشن کے تحت ہوتا ہے اور گلگت بلتستان کے صرف مخصوص علاقوں میں ہی اس کی اجازت ہے۔

کوئی بھی شخص اگر غیر قانونی شکار میں ملوث پایا جاتا ہے تو اسے پکڑ کر سزا دی جاتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں