اڑنے والی گاڑیاں دنیا بھر میں اس دہائی کے اختتام تک عام ہوجائیں گی۔

یہ بات گاڑیاں تیار کرنے والی ایک بڑی کمپنی ہنڈائی کے یورپ میں موجود سربراہ نے بتائی، انہوں نے کہا کہ اس سے ٹریفک کے ہجوم میں کمی اور گاڑیوں سے خارج ہونے والے زہریلے مواد کی شرح کم کی جاسکے گی۔

ہنڈائی کے یورپ میں چیف ایگزیکٹو مائیکل کول نے کہا کہ ان کی کمپنی نے اڑنے والی گاڑیوں کے حوالے سے نمایاں سرمایہ کاری کی ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ اس طرح کی سواریاں مستقبل کا حصہ ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ بس کچھ وقت درکار ہے جس کے بعد فضاؤں میں سفر کرسکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے خیال میں اس دہائی کے اختتام تک ایسا ہوجائے گا، شہروں میں گاڑیوں کے ذریعے فضائی سفر سے ٹریفک کے ہجوم کو ختم کرنے کا بہترین موقع مل سکے گا، زہریلے مواد کا اخراج کم ہوگا، اب یہ شہر کے اندر کا سفر ہو یا شہروں کے درمیان فضائی سفر'۔

ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے مستقبل کے اسمارٹ سفر کی حکمت ملی کا حصہ ہے۔

اس کمپنی کی جانب سے جنوری 2020 میں لاس ویگاس میں کنزیومر الیکٹرونکس شو کے دوران رائیڈ شیئرنگ کمپنی اوبر کے اشتراک سے ایک اڑنے والی گاڑی کے کانسیپٹ ماڈ کو بھی پیش کیا گیا تھا۔

یہ کانسیپٹ ماڈل بنیادی طور پر ہیلی کاپٹر سے متاثر طیارے جیسا ہے جس کے ذریعے اوبر ائیر فلائٹ شیئرنگ سروس کے مسافر اپنی منازل پر پہنچ سکیں گے۔

اوبر ایلیویٹ کے سربراہ ایرک ایلیسن نے اس موقع پر بتایا 'یہ گاڑی اوبر کو آسمان پر لے جائے گی، چونکہ ہم خود اڑنے والی ٹیکسیاں تیار نہیں کرسکتے، تو ہنڈائی یہ طیارے ہمارے لیے تیار کررہی ہے'۔

ان کا کہنا تھا 'ہنڈائی کی اڑن ٹیکسیوں کے ذریعے مسافروں کو آسمان پر لے جانے کا دن آپ کی توقع سے بھی زیادہ قریب ہے'۔

ہنڈائی کی ای۔ وی ٹی او ایل (الیکٹرک ورٹیکل ٹیک آف ایند لینڈنگ) کو ایس اے 1 کا نام دیا گیا ہے اور یہ فی الحال کانسیپٹ ماڈل ہے جس کے کمرشل ماڈل کی تاریخ طے نہیں کی گئی، مگر ہنڈائی کی خواہش ہے کہ اس کے ذریعے 4 مسافروں کو منزل تک پہنچانا ممکن بنایا جائے۔

اس منصوبے کے تحت ان اڑنے والی گاڑیوں کے بتدریج خودکار بنایا جائے گا۔

ہنڈائی کی یہ اڑنے والی گاڑیاں مکمل طور پر بجلی پر کام کرتی ہیں جو 2 ہزار فٹ کی بلندی پر 60 میل تک سفر کرسکتی ہیں اور ان کو 10 منٹ میں چارج کرنا ممکن ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں