چیئرمین ای ٹی پی بی سے ہندوؤں کی املاک کی فروخت پر وضاحت طلب

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2021
ڈاکٹر رمیش کمار نے درخواست میں سال 2014 کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کی استدعا کی تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی
ڈاکٹر رمیش کمار نے درخواست میں سال 2014 کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کی استدعا کی تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے متروکہ وقف املاک بورڈ (ای ٹی پی بی) کے چیئرمین کو عدالت میں طلب کرتے ہوئے کراچی میں ہندو املاک کی مبینہ فروخت کی وضاحت دینے کی ہدایت کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ہندو کونسل (پی ایچ سی) کے پیٹرن ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اقلیتی برادری کی املاک کے تحفظ سے متعلق دی گئی ہدایات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

مذکورہ پٹیشن کی سماعت میں چیف جسٹس گلزار احمد نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کس قانون کے تحت اقلیتیوں کی املاک فروخت کی جارہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: عدالتِ عظمیٰ نے کراچی میں دھرم شالہ کو مسمار کرنے سے روک دیا

ڈاکٹر رمیش کمار نے درخواست میں سال 2014 کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنانے کی استدعا کی تھی جس میں اسکولوں اور کالجوں کے لیے نصاب تیار کر کے معاشرے میں مذہبی اور ثقافتی رواداری کو فروغ دینے کے لیے حکومت کے لیے رہنما اصول وضع کیے گئے تھے۔

فیصلے میں رواداری کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس کی تشکیل اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے پولیس یونٹ کے قیام کی تجویز دی گئی تھی۔

درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ انکوائری میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ متروکہ وقف املاک بورڈ نے یہ ثابت کرنے کے لیے دستاویزات میں رد و بدل کیا کہ محکمہ ورثہ سندھ نے کراچی میں ہندو یاتریوں کے قیام کی جگہ (دھرم شالہ) کو مسمار کرنے کے لیے تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) جاری کیا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 716 مربع گز تک وسیع اراضی کو ایک بلڈر کو شاپنگ سینٹر کی تعمیر کے لیے دے دیا گیا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: کرک میں ہندو سمادھی کا تعمیراتی کام 6 ماہ میں مکمل کرنے کا حکم

خیال رہے کہ 11 جون کو سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کے محکمہ ورثہ اور متروکہ وقف املاک کو دھرم شالا کا کوئی بھی حصہ مسمار نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے کمشنر کراچی کو عمارت کا کنٹرول سنبھالنے کی ہدایت کی تھی تاکہ کوئی فرد عمارت کے احاطے میں داخل نہ ہو۔

درخواست میں ڈاکٹر رمیش کمار نے عدالت سے احاطے کا کنٹرول نزد واقع بگھانی مندر کی انتظامیہ کو دینے کی استدعا کی تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے متروکہ وقف املاک کی جانب سے دستاویزات میں رد و بدل اور قدیم عمارت کو مسمار کرنے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے انکوائری کرانے کی بھی استدعا کی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ متروکہ وقف املاک بورڈ نے عدالت کی اس ہدایت پر عمل نہیں کیا کہ بورڈ، پی ایچ سی کو 3 کروڑ 80 لاکھ روپے جاری کرے جو اس نے کرک، خیبر پختونخوا میں شری پریم ہنس دیال جی مہاراج (تری مندر) کی سمادھی (مزار) کی تعمیر اور بحالی پر خرچ کیے۔

یہ بھی پڑھیں: 'ہندوؤں کے مقدس مقامات کی حالت زار غفلت کا منظر پیش کررہی ہے'

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت خیبر پختونخوا نے بحالی کے کام کے لیے 20 لاکھ روپے کی گرانٹ دی جبکہ اس پر 4 کروڑ روپے کی لاگت آئی۔

انہوں نے سپریم کورٹ پر زور دیا کہ وہ متروکہ وقف املاک بورڈ کو پی ایچ سی کو 3 کروڑ 80 لاکھ روپے کی ادائیگی کے لیے نئی ہدایت جاری کرے اور اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ مجموعی طور پر ایک ہزار 831 مندر اور گردوارے بورڈ کے دائرہ اختیار میں ہیں لیکن ان میں سے صرف 31 عبادت کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، بقیہ کو یا تو بند کردیا گیا، اس پر تجاوزات قائم کردی گئیں یا تیسرے فریق کو لیز پر دے دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں