بلوچستان: ہرنائی میں 3 کان کنوں کا قتل

21 نومبر 2021
واقعے کے بعد لاشوں کی میڈیکو لیگل کارروائی کے لیے شاہرگ میں موجود ہیلتھ سینٹر پہنچایا گیا۔—فائل فوٹو: رائٹرز
واقعے کے بعد لاشوں کی میڈیکو لیگل کارروائی کے لیے شاہرگ میں موجود ہیلتھ سینٹر پہنچایا گیا۔—فائل فوٹو: رائٹرز

بلوچستان میں ہرنائی کے علاقے زالاوان میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3 کان کنوں کو قتل کردیا۔

ہرنائی ضلع کےڈپٹی کمشنر سہیل ہاشمی نے بتایا کہ حملہ آور صبح کوئلے کی کان پر پہنچے اور کان کنوں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 3 کان کن موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔

مزیدپڑھیں: کان کنوں کا قتل: ہزارہ برداری کے سوگواروں کا انصاف کا مطالبہ

ڈپٹی کمشنر کے مطابق ہلاک ہونے والی کان کنوں کا تعلق افغانستان کے شہر قندھارسے تھا۔

واقعے کے بعد لاشوں کی میڈیکو لیگل کارروائی کے لیے شاہرگ میں موجود ہیلتھ سینٹر پہنچایا گیا۔

پاکستان سینٹرل مائنز اینڈ لیبر فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل لالہ سلطان کے مطابق رواں برس صوبے میںت تقریباً 104 کان کن جاں بحق ہوچکے ہیں۔

ستمبر میں گیس لیکج کے واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھی بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور کام کی ناگفتہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: مچھ میں اغوا کے بعد 11 کان کنوں کا قتل

کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےانسانی حقوق کی تنظیم کے تجربہ کار رکن حسین نقی نے کہا تھا کہ ایچ آر سی پی کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو یہ جان کر تشویش ہوئی ہے کہ کوئلے کی کان میں کام کرنے والے رضا کاروں کے حقوق کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

ایچ آر سی پی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ بلوچستان میں مزدوروں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کے بعد معاوضہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کم ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگرصوبوں میں یہ لاگت تقریباً 5 لاکھ تک ہوتی ہے جبکہ بلوچستان میں یہ صرف 3 لاکھ تک ہے۔

مزیدپڑھیں: بلوچستان: ضلع کیچ سے 5 افراد کی لاشیں برآمد

انسانی حقوق کی تنظیم نے سفارش کی تھی کہ حکومت کان کنی کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے۔

تنظیم کے مطابق حکومت کان کے مالکان اور ٹھیکیداروں کو 1923 کے مائنز ایکٹ اور اس کے بعد ہونے والی ترامیم کی دفعات کے مطابق چلانے کا پابند کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں