افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کا اسلامی امارات کی ’شاخ‘ ہونے کا دعویٰ مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2021
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ٹی ٹی پی  بطور تنظیم آئی ای اے کا حصہ نہیں ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ٹی ٹی پی بطور تنظیم آئی ای اے کا حصہ نہیں ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

افغان طالبان نے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے دوری اختیار کرلی، حال ہی میں ٹی ٹی پی نے کابل میں برسرِ اقتدار اسلامی امارات افغانستان (آئی ای اے) کی ’شاخ‘ ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو میں دیکھا گیا تھا جو مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کے پاکستان کے شمالی علاقوں کے دورے کے موقع پر بنائی گئی تھی اور اس میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کی تنظیم آئی ای کے ’چھتری تلے‘ ہے۔

ایک ویڈیو میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’تحریک طالبان پاکستان، افغانستان کی اسلامی امارات کی شاخ ہے، اور وہ اس سرزمین پر ان کی چھتری کے تلے ہیں‘۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے غیر ملکی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں نور ولی محسود کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ٹی پی کا آئی ای اے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی کے افغان طالبان سے تعلقات برقرار ہیں، اقوام متحدہ

اخبار نے ذبیح اللہ مجاہد کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’وہ بطور تنظیم آئی ای اے کا حصہ نہیں ہیں اور ہمارے مقاصد بھی یکساں نہیں ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ٹی ٹی پی کو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنے ملک میں امن و استحکام پر توجہ دیں، یہ بہت اہم ہے، انہیں ایسے مواقع فراہم نہیں کرنے چاہیے کہ جس سے خطے یا پاکستان میں دشمن داخل ہوں‘۔

طالبان کے ترجمان نے پاکستان سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ خطے اور پاکستان کی بہتری کے لیے ان کے مطالبات پر نظر ثانی کریں‘۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے اور آئی ای اے کا موقف ہے کہ ہم کسی ملک کے معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے، ہم پاکستان کے مسئلے میں بھی مداخلت نہیں کریں گے۔

جنگ بندی کی شروعات اور اختتام

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا یہ بیان افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے اس بیان کے کم و بیش ایک ماہ بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ افغان طالبان نے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی افغانستان کا نہیں، پاکستان کا مسئلہ ہے، ذبیح اللہ مجاہد

افغان طالبان کی مدد سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کی جانب سے اس جنگ بندی کی مزید توسیع سے انکار کردیا گیا ہے، حکومت اس فیصلے کی پاسداری میں ناکام ہے جو انہوں نے اس سےقبل کیا تھا۔

ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں 6 نکات پر مبنی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئی ای اے کی سرپرستی میں حکومت سے معاہدے تک پہنچ گئے ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ معاہدے کےمطابق دونوں فریقین نے بطور ثالث افغانستان کے کردار کو قبول کیا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ ثالث کے زیر سرپرستی دونوں فریقین پانچ اراکین پر مشتمل کمیٹیاں بنائیں گے جو آئندہ کے اقدامات اور مطالبات پر تبادلہ خیال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین نے یکم نومبر سے 30 نومبر تک ایک ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ حکومت 102 ’قیدیوں‘ کو رہا کرکے ٹی ٹی پی کےحوالے کرے گی، جس کے بعد آئی ای اے اور دونوں فریقین نے یکم نومبر 2021 کو جنگ بندی کے حوالے سے مشترکہ بیان جاری کیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: حکومت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہوگیاہے، فواد چوہدری

بیان کے مطابق حکومت نہ صرف دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے فیصلے کے نفاذ میں ناکام ہوگئی ہے بلکہ اس کے برعکس سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، سوات، باجوڑ ،صوابی اور شمالی وزیرستان میں کارروائی کرتے ہوئے کئی جنگجووں کو ہلاک کیا اور متعدد کو حراست میں لیا۔

ٹی ٹی پی کا کہنا تھا کہ’ ان حالات کے پیش نظر ممکن ہے کہ جنگ بندی مزید جاری نہ رکھی جائے‘۔

اگر ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو حکومت پاکستان کے امن کے معاہدےاور کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں