ٹی ٹی پی افغانستان کا نہیں، پاکستان کا مسئلہ ہے، ذبیح اللہ مجاہد

29 اگست 2021
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ القاعدہ اب افغانستان میں موجود نہیں ہے— فائل فوٹو: اے پی
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ القاعدہ اب افغانستان میں موجود نہیں ہے— فائل فوٹو: اے پی

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ ہے، اس لیے اس حوالے سے حکمت عملی بنانا بھی پاکستان کا کام ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام 'جرگہ' میں گفتگو کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ حکومت کی تشکیل کے حوالے سے بھرپور طریقے سے کام جاری ہے، بعض معاملات کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ کابل میں اچانک داخلہ اور نظم و نسق سنبھالنا غیرمتوقع تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان کو تنہا چھوڑا گیا تو اس کا نقصان سب کو ہو گا، شاہ محمود

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ حکومت کی تشکیل میں وسیع تر مشاورت کریں تاکہ ایک مضبوط حکومت تشکیل دی جا سکے اور جنگ کے خاتمے کے ساتھ ایک ایسا نظام تشکیل دیا جا سکے جو عوامی خواہشات کی نمائندگی کرتا ہو۔

طالبان ترجمان نے کہا کہ ہم کافی حد تک اس میں کامیاب ہو چکے ہیں لیکن اس حوالے سے کام اور تمام معاملات پر گفت و شنید جاری ہے اور آپ جلد سنیں گے کہ حکومت کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ چند روز میں ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ حکومت کی تشکیل کا اعلان کردیں اور ہمیں احساس ہے کہ حکومت کا اعلان نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں روزمرہ کے کاموں، تجارتی اور سفارتی معاملات میں مشکلات کا سامنا ہے۔

سابقہ افغان حکومت میں شامل افراد سے مذاکرات کے حوالے سے سوال پر ان کا کہناتھا کہ ہم ان سے مشاورت کررہے ہیں اور ان سے تجاویز بھی لے رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کو حکومت میں شامل کریں جنہیں عوام کی حمایت حاصل ہو اور ایسے لوگوں سے اجتناب کریں جو کابل میں تنازعات کا حصہ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں 'پائیدار حل' کیلئے پاکستان کا کردار اہم ہے، امریکی قانون ساز

پنج شیر کی صورتحال حوالے سے سوال پر ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ 60فیصد امید ہے کہ معاملہ بات چیت سے حل ہو جائے گا، ہم اس سلسلے میں تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں، علما اور جہادی رہنماؤں سے بھی مدد لے رہے ہیں، بات چیت اور پیغامات کا تبادلہ جاری ہے تاکہ جنگ کی ضرورت پیش نہ آئے اور چاہتے ہیں کہ جیسے ہم نے اکثر صوبوں میں لڑے بغیر کنٹرول حاصل کیا ہے، اسی طرح پنج شیر کو بھی کابل کے زیر اثر لایا جائے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر جنگ کی ضرورت پڑی بھی تو یہ زیادہ طویل نہیں ہو گی کیونکہ ہمارے جنگجوؤں نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، یہ معاملہ زیادہ وقت نہیں لے گا اور بات چیت سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ نظربند نہیں بلکہ دیگر افغانوں کی طرح آزاد ہیں تاہم ان کی حظاظت یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، انہیں سہولیات حاصل ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ہر جگہ آ جا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ ہی نہیں بلکہ ہر افغان اپنی مرضی سے ملک سے باہر جا سکتا ہے اور ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، یہ ان کا حق ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے رپورٹ: کابل ہوائی اڈے پر افراتفری، دھماکے سے چند لمحے قبل روانگی

ان کا کہنا تھا کہ عام معافی کا اعلان اشرف غنی سمیت تمام افغانوں کے لیے ہے اور اگر سابق افغان صدر وطن واپس آنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہمارا کسی سے انتقام کا ارادہ نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں طالبان ترجمان نے کہا کہ سابق افغان نائب صدر امراللہ صالح اگر جنگ پر اصرار چھوڑ دیں تو ان کے لیے معافی کا آپشن موجود ہے لیکن اگر وہ جنگ اور افغانستان کو دوبارہ آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں تو ان کے ساتھ ہمارا رویہ مختلف ہو گا۔

انہوں نے سی آئی کے سربراہ کی ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس طرح کی کوئی خبر نہیں ہے لیکن سابقہ معاہدوں کے سبب ہمارا افغانستان اور خطے کے مفادات کے حوالے سے امریکا سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ ہم نے افغانستان میں چھ ماہ تک داخل نہ ہونے کا کوئی معاہدہ کیا تھا، ہمارا اس حوالے سے کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا تھا لیکن ہم نے ازخود فیصلہ کیا تھا کہ ہم کابل کی حدود میں پہنچ کر رک جائیں گے تاکہ امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے رپورٹ: حکومتی خلا کے سبب کابل کے عام شہری پریشان

امریکی انخلا میں توسیع کے حوالے سے سوال پر ترجمان نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ معاہدے کی رو سے طے شدہ تاریخ تک بیرونی افواج کا انخلا 31تاریخ تک مکمل ہو جائے گا کیونکہ یہ آخری مراحل میں ہے۔

کابل ایئرپورٹ پر دھماکے کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، ہم نے سنا ہے کہ بعض لوگ اسے داعش سے منسوب کررہے ہیں اور ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ اسی طرح کے لوگوں نے یہ کارروائی کی ہو گی۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہمارا یہ اصولی موقف ہے کہ ہم کسی کو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال اور امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہم اس پر قائم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل سرحد ناہموار ہے اور ایسے علاقے موجود ہیں جہاں ہمارا کنٹرول نہیں ہے اور ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پاکستان کی فورسز بھی موجود نہیں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) اپنے آپ کو ہمارا تابعدار سمجھتے ہیں اور ہمارے امیرالمومنین کو مانتے ہیں تو پھر انہیں ان کی باتوں پر عمل کرنا ہو گا۔

ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف کارروائی سے روکنے کے حوالے سے سوال پر افغان طالبان کے ترجمان نے کہا کہ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے اور اس حوالے سے ان کے عوام، علما اور پاکستانی حلقے لائحہ عمل طے کریں، یہ ہمارا قضیہ نہیں۔

مزید پڑھیں: داعش خراسان گروپ کا کابل ایئرپورٹ حملے کا 'منصوبہ ساز' ڈرون حملے میں مارا گیا، امریکا

ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان سے متعلق ہے اس لیے حکمت عملی بنانا بھی پاکستان کا کام ہے۔

القاعدہ کی موجودگی کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ القاعدہ کے لوگ افغانستان سے تعلق نہیں رکھتے، وہ عربی بولتے تھے اور ان کا لباس اور حلیہ بھی افغانوں جیسا نہیں تھا، 2001 کے بعد عرب ممالک میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں جس کی وجہ سے وہ وہاں واپس چلے گئے اور وہاں ان کی جدوجہد شروع ہو گئی جس کی وجہ سے وہ افغانستان میں موجود نہیں ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں