’نجی شعبے کے مقابلے میں سرکاری ملازمین کے معاوضے کئی زیادہ ہیں‘

اپ ڈیٹ 15 دسمبر 2021
گریڈ 21 کے افسر کی مجموعی لاگت اقوام متحدہ کے قومی افسر کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
گریڈ 21 کے افسر کی مجموعی لاگت اقوام متحدہ کے قومی افسر کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: عمومی تاثر کو رد کرتے ہوئے ایک سرکاری تھنک ٹینک نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان کے سرکاری ملازمین کو ملنے والے معاوضے اور پینشن ان کے نجی شعبے کے ہم منصبوں سے زیادہ ہیں اور ساتھ ہی وسیع پیمانے پر اصلاحات پر زور دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے مجموعی معاوضے کے تخمینے، بشمول مالی اجرت کے علاوہ الاؤنسز اور مقدار کے مطابق غیر معمولی اور غیر محسوس انعامات کی مقدار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سرکاری ملازمین کو کم تنخواہ نہیں دی جاتی بلکہ سیلری سلپ پر ایک بڑا حصہ ظاہر نہیں کیا جاتا۔

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ساتھ مل کر کی گئی ایک تحقیق میں پی آئی ڈی ای نے نوٹ کیا کہ سرکاری ملازمین کی جانب سے مختلف تنخواہوں اور پنشن کمیشنز نے معاوضوں میں نظرثانی کے لیے من مانی فیصلے کیے گئے اور رہائش اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ اجلاس: سرکاری ملازمین کی تنخواہ، پینشن میں 10 فیصد اضافے کی منظوری

پی آئی ڈی ای کے وائس چانسلر ندیم الحق، جو آئی ایم ایف کے ایک سابق سینئر عہدیدار اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے سربراہ تھے، انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’دیکھیں عمران خان کی حکومت کس طرح بڑی اصلاحات میں ناکام ہوگئی، سول سروس مراعات پر پی آئی ڈی ای کا کام منفرد ہے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ گریڈ 21 کے افسر کی مجموعی لاگت اقوام متحدہ کے قومی افسر کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے۔

نجی شعبے کے مقابلے میں سرکاری شعبے میں غیر مالیاتی فوائد بہت زیادہ ہیں جبکہ نجی شعبے کے 80 فیصد ملازمین کے پاس کوئی غیر مالی فوائد نہیں ہیں۔

اس کے برعکس سرکاری شعبے کے تقریباً 80 فیصد ملازمین کو تنخواہ کے علاوہ 3 سے زیادہ فوائد حاصل ہیں۔

مزید پڑھیں: ملازمین کی برطرفی: ’عدالتی فیصلے تک برطرف ملازمین کو سرکاری رہائش گاہوں سے نہ نکالا جائے‘

ایم فل/پی ایچ ڈی ڈگری کے سوا تمام تعلیمی سطحوں پر پبلک سیکٹر میں اجرت کا پریمیم ہے، مراعات معاوضے کی ایک غیر مؤثر شکل ہیں کیونکہ وہ کارکردگی اور قابلیت سے منسلک نہیں ہیں۔

ورلڈ بینک کے عالمی بیوروکریسی انڈیکیٹرز کا تخمینہ ہے کہ پاکستان میں پبلک سیکٹر کی اجرت نجی شعبے کی اجرتوں سے 53 فیصد زائد ہے۔

رپورٹ میں نوٹ کیا گیا ہے کہ جیسے جیسے سرکاری ملازمین گریڈ کی سیڑھی چڑھتے جاتے ہیں مجموعی تنخواہ میں نقد الاؤنسز کا تناسب بڑھتا رہتا ہے اور اسی طرح مجموعی لاگت میں مقدار کے لحاظ سے مراعات کا تناسب بھی بڑھتا ہے۔

سرکاری رہائش کی سہولت، جو کہ ایک قسم کے فائدے کے طور پر دی جاتی ہے، کبھی بھی سرکاری ملازمین کی کُل لاگت میں شمار نہیں کی جاتی، یہ ایسی چیز ہے جس میں حکومت کے لیے بہت زیادہ لاگت ہوتی ہے۔

یہ بھی دیکھیں: سرکاری ملازمین کیلئے 10فیصد ایڈہاک ریلیف کا اعلان

پی آئی ڈی ای کے تخمینے بتاتے ہیں کہ مثال کے طور پر اسلام آباد میں وفاقی ہاؤسنگ اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 14 کھرب 50 ارب روپے ہے۔

یہ اثاثوں کی رہائشی قیمت ہے اور اگر اسے تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کی قیمت نمایاں طور پر زیادہ ہو جائے گی اور کرائے کی مد میں سالانہ 11 ارب روپے کمائے جاسکتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مراعات اور مختلف الاؤنسز سرکاری ملازمین کی کُل لاگت میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہیں جنہیں اگر مالی شکل دی جائے تو سرکاری شعبے میں کم تنخواہوں کا وہم دور ہو جائے گا۔

تنخواہوں کی فہرست بنانے اور ادائیگی کا ایک مناسب نظام تیار کرنے کے بجائے تنخواہ اور پنشن کمیشن کا نقطہ نظر من مانا الاؤنس فراہم کرنا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا وفاقی ملازمین کو تنخواہوں میں 25 فیصد ایڈہاک ریلیف دینے کا اعلان

رپورٹ میں کہا کہ یہ الاؤنسز مثلاً رہائشی اور سفری الاؤنس اکثر مارکیٹ کی صورتحال سے منسلک نہیں ہوتے، یہ نظام مزید تفاوت کا سبب بنتا ہے جب زیادہ طاقتور سروس گروپ اپنے پیشہ ور گروپس میں ہم منصبوں کے مقابلے میں زیادہ عالیشان رہائش حاصل کر سکتے ہیں۔

ملک کی 70 سالہ تاریخ میں سول سروس اصلاحات کے لیے 29 کمیشنز تشکیل دیے گئے لیکن کوئی ایک بھی نمایاں تجاویز نہیں لاسکا کیوں کہ زیادہ تر اصلاحاتی بات چیت کا تعلق محض تنظیمی تشکیل نو، تنخواہوں کے پیمانے میں معمولی ایڈجسٹمنٹس، پیشہ ورانہ گروپس کی تخلیق، انضمام یا تحلیل اور افعال اور اختیارات میں تبدیلیوں سے ہوتا تھا۔

رپورٹ کے مطابق جب تمام اصلاحاتی کوششیں سول سروس کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ناکام رہیں تو زیادہ سے زیادہ فوائد اور مراعات کے لیے سیاسی طور پر فائدہ اٹھانے کا نظام قائم ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں پینشن کا سرکاری نظام زیادہ سخی ہے، حالانکہ ریٹائرمنٹ کے وقت آخری بنیادی تنخواہ کے 70 فیصد کے برابر پینشن مقرر کی جاتی ہے لیکن اگر آنے والی حکومتوں کی جانب سے اس میں کیے گئے اضافوں کو شامل کرلیا جائے تو کچھ کیسز میں پینشن آخری بنیادی تنخواہ کے 122 سے 140 فیصد تک بھی پہنچی ہے۔

حکومت میں ایک شخص اوسطاً 25 سال یا اس سے زیادہ عرصہ کام کرتا ہے اور 80 سال کا ہونے تک پنشن حاصل کرتا ہے۔

اس کی موت کے بعد اس کے اہلِ خانہ کے 13 افراد پینشن کا دعویٰ کر سکتے ہیں جن میں بیوہ، غیر شادی شدہ بیٹی، کم عمر بچے، بیوہ بیٹی، طلاق یافتہ بیٹی اور معذور بچہ شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں