ملازمین کی برطرفی: ’عدالتی فیصلے تک برطرف ملازمین کو سرکاری رہائش گاہوں سے نہ نکالا جائے‘

اپ ڈیٹ 11 نومبر 2021
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے استدعا کی کہ  عدالت 20 اگست کے فیصلے کو معطل کرے— فائل فوٹو: اے ایف پی
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے استدعا کی کہ عدالت 20 اگست کے فیصلے کو معطل کرے— فائل فوٹو: اے ایف پی

عدالت عظمیٰ میں دی سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کالعدم قرار دینے سے متعلق کیس میں عدالت نے ملازمین کی سرکاری مکانات سے بے دخلی روکتے ہوئے تمام فریقین کے وکلا سے تحریری دلائل طب کرلیے۔

سپریم کورٹ میں سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کالعدم قرار دینے سے متعلق کیس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی دور کے قانون کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست

عدالت نے 16 ہزار سرکاری ملازمین کی برطرفی کے خلاف نظر ثانی اپیل پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے تک برطرف ملازمین کو سرکاری رہائش گاہوں سے نہ نکالا جائے اور برطرفی کا فیصلہ معطل کرنے کی وفاقی حکومت کی استدعا مسترد کردی۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر فیصلے کی معطلی چاہتے ہیں کیونکہ سرکاری اداروں کا کام متاثر ہو رہا ہے۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریماکس دیے کہ انسانی بنیادوں کا جائزہ حکومت لے سکتی ہے عدالت نہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین (بحالی ) آرڈیننس ایکٹ 2010 کو کالعدم قرار دے دیا

اٹارنی جنرل نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر فیصلے کی معطلی چاہتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انسانی بنیادوں کا جائزہ حکومت لے سکتی ہے عدالت نہیں، کسی کے حقائق اور قانونی نکات سن کر فیصلے سے متعلق فیصلہ کریں گے۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ شفافیت اور میرٹ پر بھرتیوں کا ہے، حکومت سرکاری خزانے سے خیرات نہیں کر سکتی۔

جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سرکاری اداروں کا کام متاثر ہو رہا ہے، برطرف ملازمین کی جگہ نئی بھرتیاں بھی نہیں ہو سکتیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فیصلے سے 16 ہزار سے زائد خاندان متاثر ہو رہے ہیں۔

جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ سرکاری اداروں کا کام پہلے بھی چلتارہا ،ا ب بھی چلے گا،
کھلے دل سے کیس سن رہے ہیں، اپنی غلطی نظر آئی تو اصلاح کریں گے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ پارلیمان سے منظور شدہ قانون کا دفاع کرنا ہی میرا کام ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس کہ حکومت کیا چاہتی ہے، درخواست میں کچھ واضح نہیں۔

جسٹس قاضی امین نے ریماکس دیے کہ یہ ملک 16 ہزار برطرف ملازمین کا نہیں 22 کروڑ افراد کا ہے۔

بعدازاں عدالت نے نظرثانی درخواستوں پر مزید سماعت نومبر کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دی۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمین کی برطرفی کا معاملہ، قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن اراکین میں گرما گرم بحث

خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے 17 اگست کے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی تھی جس سے تقریباً 17 ہزار سرکاری ملازمین بے روزگار ہوگئے تھے۔

جسٹس مشیر عالم نے اپنے عہدے کے آخری دن 17 اگست کو پیپلز پارٹی دور کے برطرف ملازمین (بحالی) آرڈیننس ایکٹ 2010 (ایس ای آر اے) کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا تھا، جس کے تحت 90-1989 میں متعدد افراد کو ملازمت یا ترقی دی گئی تھی۔

مذکورہ فیصلے نے ہنگامہ برپا کردیا تھا اور جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی 13 ستمبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے اس وقت پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاج کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں