گلے میں سوجن، ناک بہنے اور مسلز میں تکلیف کا سامنا ہے؟ تو یہ عام نزلہ زکام، کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے، فلو یا کووڈ 19 کا کیس بھی۔

ان تینوں امراض کی علامات ملتی جلتی ہوتی ہیں اور اس کی وجہ سے ان میں فرق کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔

ڈیٹوریٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالسعید کے مطابق شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسینیشن کرانے والے افراد کورونا کی مختلف اقسام سے بیمار ہوتے ہیں تو بیماری کی شدت زیادہ سنگین نہیں ہوتی۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک ویکسین مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے، جس سے مدافعتی نظام کی وائرس کو شناخت کرنے، ہدف بنانے اور ان کو ختم کرنے میں مدد ملتی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یہ قابل فہم ہے اب کووڈ کی علامات کی شدت ویکسینیشن کرانے والے افراد میں معمولی ہوتی ہے۔

مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیماری کو سنجیدہ نہ لیا جائے کیونکہ اب اگر کم تعداد میں لوگ زیادہ بیمار ہوتے ہیں تو وہ کم تعداد بھی کافی زیادہ افراد پر مشتمل ہوگی۔

چلڈرنز نیشنل ہاسپٹل کی ڈاکٹر سارہ ایش کومبز کے مطابق کووڈ 19 کے بیشتر کیسز بظاہر نزلہ زکام یا فلو جیسے ہوتے ہیں، اور حقیقت جاننے کا بہترین ذریعہ ٹیسٹ کرانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیسٹوں کی کمی کی صورت میں تینوں بیماریوں میں فرق کرنا بہت مشکل ہوسکتا ہے۔

تو فرق کیسے کریں؟

ڈاکٹر عبدالسعید نے بتایا کہ نزلہ زکام، فلو اور کووڈ 19 کی ابتدائی علامات ملتی جلتی ہوتی ہیں۔

یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے مطابق کووڈ اور فلو دونوں میں بخار، تھکاوٹ، جسمانی درد، گلے کی سوجن، سانس لینے میں مشکلات، قے یا ہیضہ جیسی علامات سامنے آسکتی ہیں۔

مگر کووڈ 19 کو شناکت کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے متاثر فرد میں سردرد اور خشک کھانسی اکثر ایک ساتھ نظر آنے والی علامات ہیں۔

ڈاکٹر عبدالسعید کے مطابق سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی بھی کووڈ 19 کا انتباہ کرنے والی سب سے بڑی نشانی ہے، مگر وائرس کی نئی اقسام سے متاثر افراد میں یہ علامت کم نظر آتی ہے۔

انہوں نے انباہ کیا کہ جن افراد کو سینے میں شدید تکلیف کا احساس ہو بالخصوص خشک کھانسی بھی اس کے ساتھ بدترین ہو تو ان کو طبی امداد کے لیے رجوع کرنا چاہیے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اگر اوپر درج علامات ظاہر ہوں تو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے یا جانچ پڑتال کریں کہ حالیہ دنوں میں ہم جن لوگوں سے رابطے میں آئے ان میں سے کوئی کووڈ کا شکار تو نہیں ہوا، خود کو آئسولیٹ کرکے ٹیسٹ کرانا بھی اچھا خیال ہے۔

درحقیقت انہوں نے کہا کہ چاہے علامات ظاہر نہ بھی ہوں مگر ارگرد موجود کسی فرد میں کووڈ کی تشخیص ہوجائے تو احتیاط کرنا بہتر ہے۔

کووڈ ٹیسٹ کب کرائیں؟

کووڈ کا شبہ ہونے پر ٹیسٹ کرالینا اچھا خیال ہے اور ڈاکٹر عبدالسعید کے مطابق اگر علامات کا احساس ہو تو اومیکرون کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے بہتر ہے کہ انتظار کی بجائے ٹیسٹ کروالیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی کووڈ کے مریض سے ملاقات ہوئی ہو مگر علامات محسوس نہ ہورہی ہوں تو یہ امکان بھی ہوسکتا ہے کہ جسم میں وائرس اتنی مقدار میں نہ ہو جو ریپڈ ٹیسٹ میں ظاہر ہوسکے، تو ایسی صورت میں 5 دن تک انتظار کرلینا بہتر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک نیگیٹیو ٹیسٹ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کووڈ سے متاثر نہیں، بہتر طریقہ کار تو یہ ہے کہ ایک ٹیسٹ کے بعد 12 سے 24 گھنٹے میں ایک بار پھر ٹیسٹ کروائیں۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ ہو، فلو یا عام نزلہ زکام، زیادہ بہتر یہی ہے کہ وائرل بیماری سے لڑتے ہوئے خود کو آئسولیٹ کرلیں، تاکہ آپ کے پیارے کووڈ 19 کا شکار نہ ہوسکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں