اسلام آباد: شیریں مزاری کی بیٹی سمیت 200 افراد کےخلاف مقدمہ درج

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2022
طلبہ نے خضدار سے طالبعلم کی پراسرار گمشدگی پر کیمپ لگایا تھا—تصویر: ٹوئٹر
طلبہ نے خضدار سے طالبعلم کی پراسرار گمشدگی پر کیمپ لگایا تھا—تصویر: ٹوئٹر

مظاہرین سے جھڑپ کے 2 روز بعد اسلام آباد پولیس نے طلبہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے بلوچستان میں خضدار سے ایک طالبعلم کی گمشدگی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا تھا۔

کوہسار پولیس تھانے میں اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا جس میں ’مجرمانہ سازش، فسادات، غیر قانونی مجمع، حکم عدولی، ہتک عزت، نقص امن اور پولیس کے خلاف حملے پر اکسانے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین‘ کرنے کے الزامات لگائےگئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طلبہ کا احتجاج، پولیس کے مبینہ لاٹھی چارج سے متعدد زخمی

تاہم پولیس نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) سربمہر کردی۔

ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے اور کیمپ کے باہر پولیس پر پتھر برسائے، کیمپ داد شاہ، ایمان مزاری اور قمر بلوچ کی سربراہی میں بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل نے لگایا تھا جس میں 200 طلبہ شریک تھے۔

طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تھا جو خضدار سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی پراسرار گمشدگی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

مقدمے میں کہا گیا کہ پولیس کے انتباہ کے باوجود مظاہرین نے ٹینٹ لگایا جو پولیس کو بزور طاقت اپنے قبضے میں لینا پڑا جس کے نتیجے میں جھڑپ ہوئی۔

مزید پڑھیں: طلبہ کی بازیابی کی یقین دہانی پر بلوچستان یونیورسٹی میں جاری دھرنا مؤخر

بعدازاں طلبہ پولیس کو دھکیلتے ہوئے چائنا چوک پہنچے اور دھرنا دے دیا جہاں ان کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہوا۔

پولیس نے طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین گتھم گتھا ہوگئے جس کے بعد ایس ایس پی آپریشنز اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے موقع پر پہنچ کر امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے طلبہ سے مذاکرات کیے۔

پولیس اور طلبہ کی جھڑپ کے دوران 6 طالب علم اور انسداد فسادات یونٹ کے 2 افسران بھی زخمی ہوئے۔

مذاکرات کے بعد مظاہرین کو ان کے ٹینٹ سمیت سامان واپس کردیا گیا جس کے بعد وہ نیشنل پریس کلب چلے گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں