سعودی ولی عہد ایران کے ساتھ ’جوہری معاہدے‘ کے حوالے سے پُرامید

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2022
ولی عہد کا کہنا تھا کہ ہم کوئی کمزور جوہری معاہدہ نہیں دیکھنا چاہتے — فائل فوٹو:رائٹرز
ولی عہد کا کہنا تھا کہ ہم کوئی کمزور جوہری معاہدہ نہیں دیکھنا چاہتے — فائل فوٹو:رائٹرز

ویانا مذاکرات میں تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مضبوط جوہری معاہدے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اطمینان بخش معاہدے تک پہنچنے کے لیے سعودی عرب ایران سے ’تفصیلی بات چیت‘ کا ارادہ رکھتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی سرکاری میڈیا میں شائع ہونے والے امریکی میگیزین ’دی اٹلانٹک‘ کو دیے گئے بیان میں محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات سے ہم ’اچھے حالات تک پہنچ سکیں گے اور خطے کی سنی اور شیعہ طاقتوں کے لیے بہتر مستقبل بناسکیں گے جو پورے مشرق وسطیٰ میں تنازعات میں دشمنی نبھارہی ہیں۔

سعودی سرکاری میڈیا نے ولی عہد کی گفتگو کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’ایران ہمیشہ سے ہمارا پڑوسی ہے، ہم ان سے جان چھڑا سکتے ہیں نہ ہی وہ ہم سے جان چھڑا سکتے ہیں‘۔

محمد بن سلمان کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب ویانا میں امریکا اور ایران کے مذاکرات کے 2015 کا جوہری معاہدہ بحال کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں، اس معاہدے نے پابندیوں میں نرمی کے بدلے تہران کے جوہری پروگرام کو محدود کردیا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب اہم شراکت دار ہے اور اس کے دفاع کیلئے پُرعزم ہیں، امریکا

ریاض اور اس کے خلیجی اتحادیوں نے ان کے خدشات سے نمٹنے میں ناکامی کے پیش نظر معاہدے کو ناقص قرار دیا ہے، انہوں نے ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور یمن میں اس کے خفیہ نیٹ ورک پر خدشات کا اظہار کیا تھا، جہاں سعودی عرب ایک مہنگی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔

ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’ہم کوئی کمزور جوہری معاہدہ نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ اختتام میں اس کا نتیجہ یکساں ہوگا‘۔

ایران پر مشترکہ خدشات کےپیشِ نظر ریاض کے خلیجی اتحادیوں، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے سال 2020 میں اسرائیل سے تعلقات استوار کیے تا کہ ایک سیکیورٹی اتحادی امریکا کے وعدے پر نیا علاقائی محور تشکیل دیا جاسکے۔

شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر فلسطین تنازع حل ہوجائے تو اسرائیل سعودی عرب کا ’ایک مضبوط اتحادی‘ بن سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی سیکریٹری خارجہ کا سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کا دفاع

انہوں نے کہا کہ ’ہم اسرائیل کو بطور دشمن دیکھنے کے بجائے ایک مضبوط اتحادی کی طرح تصور کرتے ہیں کیونکہ ہم مل کر مشترکہ مفادات حاصل کرسکتے ہیں لیکن اس سے قبل اسے فلسطین کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں‘۔

بائیڈن کو امریکی مفاد پر توجہ دینی چاہیے

سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ امریکی صدر جوبائیڈن ان سے متعلق چیزوں کو غلط سمجھتے ہیں، جوبائیڈن کو امریکی مفادات پر توجہ دینی چاہیے۔

جنوری 2021 میں جوبائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد، یمن جنگ اور جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں ریاض کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر دنیا کے سب سے بڑے تیل کے برآمد کنندہ سعودی عرب اور واشنگٹن کے درمیان طویل المدتی اسٹریٹیجک شراکت داری دباؤ کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات کو اسلحے کی فروخت روک دی

سعودے شہزادے کا کہنا تھا کہ ریاض امریکا میں سرمایہ کاری میں کمی کرنے کا فیصلہ کرسکتا تھا لیکن مجھے پرواہ نہیں، یہ جو بائیڈن پر منحصر ہے کہ امریکا کے مفادات کا سوچیں، ہمیں امریکا میں آپ کو لیکچر دینے کا حق نہیں اور یہی بات دوسری طرح بھی لاگو ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ یہ جو بائیڈن پر منحصر ہے کہ وہ امریکا کے مفاد کے بارے میں سوچیں، ہمیں امریکا کے معاملے پر انہیں لیکچر دینے کا کوئی حق نہیں ہے اور ایسا ہی انہیں بھی کرنا چاہیے‘۔

امریکی انتظامیہ نے ایک انٹیلجنس رپورٹ جاری کی تھی جس میں ولی عہد کو جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ٹھہرایا گیا تھا لیکن محمد بن سلمان نے اس کی تردید کی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی پر زور دیا تھا۔

ولی عہد کا کہنا تھا کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جمال خاشقجی کے بہیمانہ قتل میں ملوث ہونے کا الزام ان پر لگا کر ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودیہ، امریکا سے اچھا برتاؤ نہیں کر رہا، ڈونلڈ ٹرمپ

ان کا کہنا تھا کہ ’میں محسوس کرتا ہوں کہ انسانی حقوق کا قانون مجھ پر لاگو نہیں کیا گیا انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل الیون میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک بے قصور ہے جب تک کہ جرم ثابت نہ ہو جائے‘۔

سعودی حکمرانی آئینی بادشاہت میں تبدیل ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی بنیاد خالص بادشاہت پر ہے۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ریاض کا مقصد امریکا کے ساتھ اپنے ’طویل، تاریخی‘ تعلقات کو برقرار رکھنا اور مضبوط کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا میں سعودی عرب کی 800 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے ،اسی طرح ہمارے مفادات بڑھنے اور کم ہونے کا امکان ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں