کراچی: 'اے ایف آر' نمبر پلیٹس والی گاڑیاں جرائم و حادثات میں استعمال ہونے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2022
ڈی آئی جی ٹریفک کراچی  نے کہا ہے شو روم مالکان کے لیے 15 روز کے اندر گاڑیوں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دینی چاہیے—فوٹو:فہیم صدیقی،شکیل عادل،وائٹ اسٹار
ڈی آئی جی ٹریفک کراچی نے کہا ہے شو روم مالکان کے لیے 15 روز کے اندر گاڑیوں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دینی چاہیے—فوٹو:فہیم صدیقی،شکیل عادل،وائٹ اسٹار

غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد نہ صرف کراچی بلکہ صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی جعلی 'اے ایف آر' نمبر پلیٹس کے ساتھ سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں، حکام اور ذرائع کا کہنا ہے کہ ان جعلی نمبر پلیٹس کی وجوہات ایک خاص سوچ اور سندھ حکومت کی مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی اور عزم کا فقدان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام اور ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والوں کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ایسی 'اے ایف آر' (اپلائیڈ فار رجسٹریشن) نمبر پلیٹ والی گاڑیاں جرائم یا حادثات میں ملوث پائی جاتی ہیں۔

پولیس کی ناک کے نیچے یہ گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں لیکن انہیں روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا، جعلی نمبر پلیٹس والی ایسی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کرنا بنیادی طور پر ٹریفک پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن وہ اکثر قانون کی سنگین خلاف ورزی پر آنکھیں بند کر لیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں 3 لاکھ سے زائد افراد گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کے منتظر

ذرائع کا کہنا ہے کہ اے ایف آر 2021' یا 'اے ایف آر 2022' نمبر پلیٹس والی تقریباً تمام گاڑیاں درحقیقت غیر رجسٹرڈ گاڑیاں ہیں اور انہیں 'جعلی' نمبر پلیٹس کے ساتھ چلنے والی گاڑیوں کی کیٹیگری میں ڈالا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کراچی شہر میں ہزاروں کی تعداد میں ایسی گاڑیاں چل رہی ہیں جن کی اے ایف آر 2021' یا 2022'ہے۔

رجسٹریشن میں مہینوں تاخیر

حکام کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے محکمہ ایکسائز کو عام طور پر ایک درخواست گزار کو سرکاری نمبر پلیٹ فراہم کرنے میں مہینوں لگتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'اے ایف آر' نمبر پلیٹ والی گاڑی چلانے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ جیسے ہی کوئی شہری رجسٹریشن کے لیے درخواست دیتا ہے اور مطلوبہ فیس ادا کرتا ہے اسے فوری طور پر لائسنس، رجسٹریشن نمبر دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی سے چوری کی گئی گاڑیاں بلوچستان میں فروخت ہونے کا انکشاف

ایک عہدیدار نے بتایا کہ جب تک سرکاری نمبر پلیٹ جاری نہیں ہو جاتی تب تک دیا گیا رجسٹریشن نمبر گاڑی کے اگلے اور پچھلے حصے پر ظاہر ہونا چاہیے۔

حقیقی مقصد

ذرائع کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اپنی گاڑی کو اس وقت تک رجسٹر نہیں کرانا چاہتے جب تک ایسا کرنا کسی بھی وجہ سے لازمی نہ ہوجائے، بظاہر اے ایف آر نمبر کے ساتھ گاڑیاں چلانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اپنی گاڑی کی رجسٹریشن میں تاخیر کر سکتے ہیں اور گاڑی فروخت کرنے کے وقت یہ تکنیکی طور پر 'غیر رجسٹرڈ' رہتی ہے اور اس طرح سے گاڑی کو زیادہ قیمت پر فروخت کیا جا سکتا ہے۔

لہٰذا، اگر کوئی گاڑی 2020 یا 2021 میں خریدی جاتی ہے، 2022 میں فروخت ہوتی ہے اور نیا خریدار اسے رجسٹر کرواتا ہے، تو اسے '2022 رجسٹرڈ گاڑی' کے طور پر لیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پورے عرصے میں حکومت نہ صرف ایک بار کی رجسٹریشن فیس سے بلکہ سالانہ موٹر وہیکل ٹیکس سے بھی محروم رہتی ہے اور اس طرح حکومت اس فراڈ کی وجہ سے ہر سال لاکھوں روپے سے محروم ہو رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی: پولیس کا چھینی گئی گاڑیوں کی آن لائن فروخت میں ملوث گینگ گرفتار کرنے کا دعویٰ

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایسی گاڑیوں کو پکڑنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور خاص طور پر زیادہ مسئلہ تب ہوتا ہے جب ایسی گاڑی کسی جرم، روڈ حادثے خاص طور پر سڑک پر کسی شہری کو مار کر فرار ہونے کے واقعے میں ملوث ہوجائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی گاڑی کسی دوسری گاڑی سے ٹکراتی ہے اور بھاگ جاتی ہے، شکایت گزار اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ 'اے ایف آر' نمبر پلیٹ ایک جعلی نمبر ہے اور ایسی گاڑی کو شناخت کرنے یا ٹریس کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے، اس طرح اس کے ڈرائیور کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔

ذرائع نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جب ٹریفک پولیس گاڑیوں کی کھڑکیوں کے کالے شیشے ہٹانے یا سڑک سے متعلق قانون کی معمولی خلاف ورزیوں پر موٹر سائیکل سواروں کے خلاف کارروائی کرنے جیسے اقدامات کر رہی تھی اس وقت بھی جعلی 'اے ایف آر نمبر' والی گاڑیوں کو سڑکوں پر آزادانہ گھومنے کی اجازت دی جارہی تھی۔

مزید پڑھیں:گاڑی کے مسائل اور ان کے حل سے متعلق مکمل گائیڈ لائن

مالی فائدہ

ڈی آئی جی ٹریفک کراچی احمد یار چوہان کا کہنا تھا کہ 'اے ایف آر' نمبر والی گاڑیوں کو چلانے کے اس رواج کی بنیادی وجہ "ایک خاص سوچ، یا لوگوں کی ذہنیت ہے کہ اس طرح وہ گاڑی کی دوبارہ فروخت سے زیادہ رقم حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مخصوص سوچ صرف کراچی میں ہی نہیں بلکہ سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی رائج ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ جب وہ بطور ایس ایس پی ضلع قمبر میں تعینات تھے تو قمبر اور لاڑکانہ میں جرائم پیشہ افراد کی جانب سے اٹھائی گئی 50 فیصد موٹر سائیکلوں پر 'اے ایف آر' نمبر پلیٹیں ہونے کی اطلاعات رپورٹ ہوئی تھیں۔

اور جب ڈکیتی کا شکار ہونے والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ گاڑی رجسٹرڈ کیوں نہیں کرائی تو انہوں نے غربت کا عذر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے بالکل نئی موٹر سائیکل خریدنے کے باوجود اپنی گاڑی رجسٹرڈ نہیں کرائی۔

سٹی ٹریفک پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ایسی اے ایف آر گاڑیوں کی ایک اور وجہ حکومت کی لاپرواہی ہے، میں نے تجویز دی ہے کہ حکومت، خاص طور پر محکمہ ایکسائز کو یہ لازمی قرار دینا چاہیے کہ گاڑی فروخت ہونے کی صورت میں فوری طور پر مالک کے نام پر منتقل کر دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:کار سے بھی مہنگی نمبر پلیٹ

انہوں نے مزید کہا کہ کئی گاڑیاں 'اوپن لیٹر' پر چل رہی ہیں اور کسی جرم یا حادثے کی صورت میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مجرموں کو پکڑنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

لازمی رجسٹریشن

تجویز پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شو روم مالکان کے لیے 15 دن کے اندر گاڑیوں کی رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جانی چاہیے۔

اس سوال کے جواب میں کہ ٹریفک پولیس ایسی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی، ڈی آئی جی نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس وقتاً فوقتاً ایسی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔

انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ایسی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو معاشرے کے بعض طبقات افسوس کے ساتھ پولیس سے رجوع کرتے ہیں کہ وہ مہربانی کرتے ہوئے ان کی گاڑیاں چھوڑ دے، جو کہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں