یوکرین کا 'معلومات کی جنگ' میں روس پر غلبہ

07 مارچ 2022
شدید بمباری اور قتل کے خدشے کے بعد بھی یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی دارالحکومت کیف میں موجود رہے — فائل فوٹو: رائٹرز
شدید بمباری اور قتل کے خدشے کے بعد بھی یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی دارالحکومت کیف میں موجود رہے — فائل فوٹو: رائٹرز

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یوکرین نے روس کے حملے کے بعد شروعاتی دنوں میں ماسکو کے ساتھ 'معلومات کی جنگ‘ میں سوشل میڈیا پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور کیف اب تک جیتتا دکھائی دے رہا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق یہاں تک کہ شدید بمباری اور قتل کے خدشے کے بعد بھی یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی دارالحکومت کیف میں موجود رہے اور ان کی حکومت نے اپنے مقصد کے تحت حمایت حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ہر طرح سے حملہ کرنے پر پر مجبور کردیا۔

زیلنسکی کے روزانہ ویڈیو پیغامات، جو عام طور پر انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ شائع ہوتے رہے، سنسنی خیز بن چکے ہیں، جبکہ دفاع اور خارجہ کی وزارتیں یوکرین کی فوجی مزاحمت کو سنسنی خیز گرافکس میں بیان کرتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ یوکرینی باشندوں نے اپنی فوج کی کامیابی کو ظاہر کرنے والی ویڈیوز پوسٹ کیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ٹرینڈ بن چکی ہیں، ان ویڈیوز میں یوکرینی میزائل سے روسی ہیلی کاپٹر کو مار گرانے اور ایک یوکرینی کسان کے اپنے ٹریکٹر سے روسی فوج کے ہارڈویئر کو لے جانے والی ویڈیوز بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرینی شہروں کے لیے انسانی راہداریاں کھولیں گے، روس

روسی فوج کی جانب سے بمباری میں تیزی لانے کے بعد یوکرینی باشندوں کی اپنے گاؤں اور قصبوں کے کھنڈرات کے درمیان روتے ہوئے خود بنائی گئی وڈیوز نے بھی دنیا بھر کے لوگوں کا دھیان اپنی طرف کردیا ہے۔

دیگر غیر تصدیق شدہ وائرل دعووں میں ’کیف کا بھوت‘ شامل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک اڑان نے ایک درجن روسی جنگی طیاروں کو مار گرایا، یا کیف کی خاتون جنہوں نے مبینہ طور پر اچار والے برتن سے روسی ڈرون کو گرایا تھا۔

غلط معلومات کے خلاف لڑنے والی فرانسیسی کمپنی پریڈکٹا لیب کے بانی بپٹسٹے رابرٹ نے کہا کہ تصادم کے پہلے مرحلے میں بین الاقوامی رائے کے لحاظ سے یوکرین کے باشندے سوشل میڈیا پر معلومات دینے میں آگے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یوکرینی افراد کی اس جنگ کو دستاویزی شکل دینے کی حقیقی خواہش ہے، کیونکہ جب کچھ ہوتا ہے تو وہ اپنے فون نکال لیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر پر یوکرین کی حامی ویڈیوز کی اکثریت حقیقی ہے لیکن ایسے دعوے موجود ہیں جو بعد ہونے والی حقائق کی جانچ سے مبالغہ آرائی پر مبنی ثابت ہوئے۔

جنگ کے ابتدائی مراحل میں یوکرین نے 13 سرحدی محافظوں کو ہیرو کے طور پر سراہا جنہوں نے ریڈیو پر روسی افواج سے قسم کھانے کے بعد بحیرہ اسود کے ایک چھوٹے جزیرے کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوائیں۔

مزید پڑھیں: چین کا یوکرین کیلئے امداد بھیجنے کا اعلان

یوکرین کے اعلیٰ حکام نے بعد میں تسلیم کیا کہ درحقیقت وہ سب بچ گئے، پیرس میں یوکرین کے سفارت خانے نے گمراہ کرنے کی کسی بھی دانستہ کوشش کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم جعلی خبریں نہیں پھیلاتے۔

روس، جس پر 2016 کے امریکی صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں توازن قائم کرنے کے لیے غلط معلومات پھیلانے کا الزام ہے، کو اس طرح کے ہتھکنڈوں کے ماضی کے ماسٹر کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن یہاں توازن ماسکو کے خلاف تولا جارہا ہے۔

کچھ آزاد مبصرین کے مطابق مغرب میں انتہائی غیر مقبول ہونے کے علاوہ جنگ کا ابتدائی مرحلہ کریملن کے لیے کامیاب نہیں رہا۔

سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں بین الاقوامی سیکیورٹی پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر اور سینٹر فیلو ایمیلی ہارڈنگ نے کہا کہ میں روسیوں کو معلومات کے محاذ پر ایڈجسٹ ہونے کے لیے دوبارہ کوشش کرتے ہوئے دیکھ سکتی ہوں، لیکن چیزوں کو چلانے کے لیے کچھ وقت لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ توقع کرتی ہیں کہ روس ماحولیاتی نظام میں بہت ساری غلط معلومات کو دھکیل دے گا کہ جنگ کس طرح چل رہی ہے، جس میں یوکرین کے فوجیوں کو مبینہ طور پر ہتھیار ڈالتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین کے لڑائی بند کرنے تک جنگ ختم نہیں ہوگی، روسی صدر

'روسی یہ بیانیہ اپنا رہے ہیں'

تاہم روس ملک سے باہر پیدا ہونے والی عوامی رائے کے بارے میں اتنا فکر مند نہیں ہے، مگر اس کی کوششیں صدر ولادیمیر پیوٹن کی سربراہی میں ملکی حمایت کو برقرار رکھنے پر مرکوز ہیں۔

اس مقصد کے لیے روس نے گزشتہ دنوں ملک میں آزاد میڈیا کا آخری مرکز بند کر دیا ہے، فیس بک کو بلاک کردیا گیا اور ٹوئٹر تک رسائی کو محدود کردیا ہے۔

امریکا کی کلیمسن یونیورسٹی کی میڈیا فرانزک لیب کے لیڈ ریسرچر ڈیرن لنول نے کہا ہے کہ یہ سچ ہے کہ یوکرینی جیت رہے ہیں لیکن دن کے اختتام پر پیوٹن کو سب سے زیادہ اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ ان کے اپنے لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے روسی یہ بیانیہ اپنا رہے ہیں، ہر بیانیہ جو یوکرین کے حق میں، جیسے روسی فوجیوں کے بارے میں باتیں کہی جارہی ہیں کہ وہ بغیر لڑے ہتھیار ڈال رہے ہیں اور یوکریں کے ہیروز کو ان کی بہادری پر سراہا جاتا ہے، آپ کو یہی چیز روس کے قوم پرستوں کی باتوں میں نظر آئے گی۔

یوکرین کی مزاحمت نے روس کو کریملن کی خواہش سے کہیں زیادہ طویل جنگ میں مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر معلوماتی جنگ میں ایک نیا مرحلہ کھولنے کا امکان پیدا کردیا ہے۔

بپٹسٹے رابرٹ کا مزید کہنا تھا کہ اگر یوکرین کے شہروں پر روسی فوج قابض ہوگی تو پھر ان علاقوں میں ایک نئی معلوماتی جنگ شروع ہوگی جو روس کے خلاف لڑ رہے ہیں اور روس کی جانب سے مسلط کی جانے والی معلومات کی جنگ کو کاؤنٹر کر رہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں