آئین میں مستقل نااہلی کی کوئی شق موجود نہیں، فیصل واڈا

اپ ڈیٹ 15 مارچ 2022
فیصل واڈا کو ای سی پی نے 9 فروری کو دوہری شہریت چھپانے پر بطور سینیٹر نااہل قرار دیا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
فیصل واڈا کو ای سی پی نے 9 فروری کو دوہری شہریت چھپانے پر بطور سینیٹر نااہل قرار دیا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

نااہل قرار دیے گئے پی ٹی آئی رہنما محمد فیصل واڈا نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ انتخابات کے دوران ریٹرننگ افسر کے سامنے مبینہ طور پر جھوٹا بیان دینے پر آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت مستقل نااہلی نہیں ہوسکتی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 9 فروری کو پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل واڈا کو 2018 کے عام انتخابات میں کراچی کی ایک نشست پر قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے وقت اپنی دوہری شہریت چھپانے پر نااہل قرار دیا تھا۔

فیصل واڈا نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے بیان میں کہا کہ جھوٹے بیان سے متعلق ایک مخصوص شق موجود ہے اس لیے عمومی شق کا اطلاق اس پر نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: دوہری شہریت کیس: الیکشن کمیشن نے فیصل واڈا کو نا اہل قرار دے دیا

پی ٹی آئی رہنما نے 2018 کا الیکشن کراچی کے حلقہ این اے 249 سے لڑا تھا۔

وکیل وسیم سجاد کے توسط سے پیش کیے گئے بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 167 کے تحت غلط بیان یا اعلان کرنا یا شائع کرنا بدعنوانی کے مترادف ہے جو کہ ایکٹ کی دفعہ 174 کے تحت قابل سزا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ آج (منگل کو) فیصل واڈا کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے 9 فروری کو سنائے گئے نااہلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کرے گا۔

مزید پڑھیں: فیصل واڈا نااہلی کیس: ’آئندہ سماعت پر کوئی نہ آیا تو فیصلہ محفوظ کرلیں گے‘

درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ریٹرننگ آفیسر سے کوئی حقیقت نہیں چھپائی، حتیٰ کہ اپنا امریکی پاسپورٹ بھی پیش کیا جو کہ منسوخ ہو چکا تھا اور نائیکوپ کی منسوخی کے بعد نادرا کی جانب سے جاری کردہ شناختی کارڈ کے ساتھ اسے پنچ بھی کیا گیا۔

ساتھ ہی نادرا کی جانب سے ایک سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا کہ درخواست گزار اب امریکی شہری نہیں رہے۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ اب وہ دوہری شہریت نہیں رکھتے اور یہ درخواست ریٹرننگ افسر نے قبول کر لی تھی۔

جواب میں کہا گیا کہ ای سی پی کو صرف یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ عدالتی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے خود کو عدالت بنانے کی بجائے شفاف اور منصفانہ طریقے سے انتخابات کرائے۔

یہ بھی پڑھیں: دوہری شہریت کا معاملہ: فیصل واڈا کو الیکشن کمیشن میں جواب جمع کرانے کیلئے آخری مہلت

کسی حق یا ذمہ داری سے متعلق تنازع کے تعین میں شواہد کی ریکارڈنگ، بشمول جرح کا حق، فریقین کے دلائل سننے کا حق اور معقول فیصلہ عدالت کی ضروری خصوصیات ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ ای سی پی کے پاس آئین کے آرٹیکل 218(3) یا الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 8 (سی) کے تحت یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ نامزد امیدوار کی مبینہ قبل از انتخاب اہلیت یا نااہلی کا فیصلہ کرے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ای سی پی کے پاس آئین کے کسی آرٹیکل کے تحت کسی امیدوار کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں کیونکہ یہ اختیار آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت قائم الیکشن ٹریبونل کو دیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ اس اختیار کی عدم موجودگی اس حقیقت سے بھی ظاہر ہے کہ آرٹیکل 218 یا ایکٹ کے سیکشن 8 (سی) کے تحت متاثرہ فریق کو اپیل کی کوئی گنجائش فراہم نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: نااہلی کیس: فیصل واڈا کی الیکشن کمیشن میں سماعت رکوانے کی درخواست مسترد

انہوں نے استدعا کی کہ الیکشن ایکٹ نامزد امیدوار کو یقینی تحفظ فراہم کرتا ہے جیسا کہ الیکشن ٹربیونل میں درخواست صرف 45 دن کے اندر دائر کی جا سکتی ہے اور ٹربیونل کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل ایک ماہ کے اندر دائر کی جانی تھی۔

ایکٹ کے سیکشن 9 (3) کے تحت اختیار صرف نوٹیفکیشن کے 60 روز کے اندر استعمال کیا جا سکتا ہے اور اگر ایکٹ کے سیکشن 8 (سی) کی تشریح ای سی پی کو کسی امیدوار کو نااہل قرار دینے کا اختیار دینے کے لیے کی گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس اختیار کی کوئی حدود اور متاثرہ فریق کے لیے اپیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ اس طرح دیگر تمام شقیں بے کار ہو جائیں گی جو کہ قانون کا منشا نہیں ہو سکتیں، اس لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایکٹ کا سیکشن 8 (سی) کسی امیدوار کو نااہل کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو نہیں دیتا۔

تبصرے (0) بند ہیں