الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کے خلاف کارروائی سے روکنے کی استدعا مسترد

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2022
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حکم امتناع نہیں دیا جا سکتا، نوٹسز جاری کررہے ہیں— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حکم امتناع نہیں دیا جا سکتا، نوٹسز جاری کررہے ہیں— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعظم عمران خان کے خلاف کارروائی سے روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ای سی پی سے 28 مارچ تک جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدم دستیابی پر جسٹس عامر فاروق نے وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اسد عمر کی درخواست پر سماعت کی جس میں الیکشن کمیشن کے آرڈر اور نوٹسز کو چیلنج کیا گیا تھا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیے۔

بیرسٹر علی ظفر نے استدعا کی کہ عدالت آئندہ سماعت تک الیکشن کمیشن کو عمران خان کے خلاف کارروائی سے روکے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعظم کو ایک اور نوٹس

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کنڈکٹ کو دیکھتے ہوئے یہ عدالت حکم امتناع جاری نہیں کر سکتی۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ سارے نکات الیکشن کمیشن کے سامنے کیوں نہیں اٹھاتے؟ کیا آپ 14 مارچ کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ نوٹس الیکشن کمیشن کا اختیار ہی نہیں تھا، ہم پیش کیوں ہوتے؟

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ کو پھر بھی پیش تو ہونا چاہیے تھا، وزیراعظم خود نہ پیش ہوتے لیکن آپ کو تو پیش ہونا چاہیے تھا۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا وزیراعظم کو دورہ سوات سے روکنے کیلئے نوٹس

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک ایگزیکٹو اتھارٹی ہے، اس نے نوٹس کیا ہے، اگر ہر کوئی خود سے تعین کر لے گا کہ نوٹس کرنے والے کا دائرہ اختیار نہیں تو کام کیسے چلے گا، نوٹس اختیار سے تجاوز ہو گا لیکن آپ کو پیش ہو کر اپنی نیک نیتی ظاہر کرنی چاہیے تھی۔

بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن پہلے ہی آرڈیننس کے خلاف جا کر آرڈر جاری کر چکا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ معذرت کے ساتھ حکومت نے بھی آرڈیننس کی فیکٹری لگا رکھی ہے، جو کام پارلیمنٹ کے کرنے والے ہیں وہ آرڈیننس کے ذریعے ہو رہے ہیں، یہ کام کوئی آرڈیننس کے ذریعے کرنے والا تھا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم، وزرا کو انتخابی مہم میں شرکت کی اجازت ملی، 10 مارچ کو الیکشن کمیشن نے آرڈر جاری کرکے وزیر اعظم اور وزرا پر پھر پابندی لگادی۔

یہ بھی پڑھیں: لوگوں کا ضمیر خریدنے کیلئے سندھ ہاؤس میں نوٹوں کی بوریاں لے کر بیٹھے ہیں، وزیراعظم

درخواست گزاروں کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ممبر پارلیمنٹ کو انتخابی مہم میں شرکت کی اجازت ہوگی مگر پبلک آفس ہولڈرز کو نہیں، الیکشن کمیشن نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر نوٹسز وزیر اعظم اور وزرا کو نوٹس جاری کیے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کوڈ آف کنڈکٹ قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا، کوڈ آف کنڈکٹ کی بنیاد پر کسی قانون کو ہی رد نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آئین کا آرٹیکل 218 الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کا اختیار دیتا ہے، کیا آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرکے آئین کے دیے گئے اختیار کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی بھی آئینی اختیار قانون بنا کر ختم کیا جاسکتا ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 233 کے تحت پابندی لگائی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن صرف کوڈ آف کنڈکٹ نہیں آئین کے آرٹیکل 218 کے مطابق آرڈر کررہا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم، وفاقی وزیر نے الیکشن کمیشن کے نوٹسز عدالت میں چیلنج کردیے

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حکم امتناع نہیں دیا جا سکتا، نوٹسز جاری کررہے ہیں۔

بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر کے 28 مارچ تک جواب طلب کر لیا، اس کے علاوہ سیکریٹری کابینہ اور عدالتی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2 روز قبل خیبرپختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران سوات میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیر اعظم عمران خان، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیراعلیٰ محمود خان کو نوٹس جاری کیا تھا۔

نوٹس میں بتایا گیا تھا کہ مقامی حکومت کے انتخابات کے لیے جلسہ عام، جلوس یا کار ریلیوں کی اجازت نہیں ہوگی، تاہم امیدوار کارنر میٹنگ کرسکتے ہیں، جس کی پیشگی اطلاع وہ مقامی انتظامیہ کو دیں گے تاکہ مناسب حفاظتی انتظامات کیے جاسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کا وزیراعظم کو لوئر دیر میں جلسے پر نوٹس

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقی اسد عمر نے الیکشن کمیشن کے نوٹسز اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیے تھے جبکہ رجسٹرار کی جانب سے درخواست پر بائیو میٹرک کا اعتراض لگا دیا گیا۔

عدالت نے اعتراض کے باوجود درخواست سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ رجسٹرار نے وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر بائیو میٹرک کا اعتراض لگایا تھا، جس سے دور کرنے کے لیے عدالت نے انہیں ایک دن کی مہلت دی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس ایک دن کا وقت ہے، بائیو میٹرک کا اعتراض دور کریں، قانون سب کے لیے برابر ہے، عدالت سہولت دے سکتی ہے لیکن بائیومیٹرک کی شرط ختم نہیں کی جا سکتی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے شریک درخواست گزار کو بائیو میٹرک کا اختیار دینے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت آج تک ملتوی کردی تھی۔

قبل ازیں الیکشن کمیشن نے 11 مارچ کو بھی انتخابی ضابطہ اخلاق پر کی گئی نظرِثانی کے تحت وزیراعظم عمران خان کو لوئر دیر میں جلسہ کرنے سے منع کیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان نے ای سی پی کے روکنے کے باوجود لوئر دیر کا دورہ کیا تھا اور جلسے سے خطاب بھی کیا تھا۔

بعد ازاں ای سی پی نے لوئر دیر میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے اور سرکاری مشینری استعمال کرتے ہوئے جلسہ کرنے پر وزیراعظم عمران خان، گورنر اور وزیر اعلیٰ سمیت متعدد وفاقی اور صوبائی وزرا کو نوٹس بھیج دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں