افغانستان: طالبان کا لڑکیوں کو ہائی اسکول جانے کی اجازت دینے کا اعلان

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2022
وزارت تعلیم نے بتایا کہ طالبات کو لڑکوں سے الگ اور صرف خواتین اساتذہ کے ذریعے پڑھایا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی
وزارت تعلیم نے بتایا کہ طالبات کو لڑکوں سے الگ اور صرف خواتین اساتذہ کے ذریعے پڑھایا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی

کابل: افغان طالبان نے آئندہ ہفتے سے ہائی اسکول کھلنے پر افغانستان میں لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں واپس جانے کی اجازت دینے کا اعلان کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل کئی ماہ تک اس حوالے سے غیریقینی صورتحال کے بادل منڈلا رہے تھے کہ کیا طالبان لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم تک مکمل رسائی کی اجازت دیں گے یا نہیں۔

مزید پڑھیں: یونیسیف کا افغان اساتذہ کو 2 ماہ کیلئے وظیفہ ادا کرنے کا اعلان

وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد ریان نے کہا کہ اسکول تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کھولے جا رہے ہیں۔

البتہ انہوں نے واضح کیا کہ لڑکیوں کے لیے کچھ شرائط ہیں، طالبات کو لڑکوں سے الگ اور صرف خواتین اساتذہ کے ذریعے پڑھایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان دیہی علاقوں میں جہاں خواتین اساتذہ کی کمی ہے، وہاں بڑی عمر کے مرد اساتذہ کو لڑکیوں کو پڑھانے کی اجازت ہو گی۔

عزیز احمد نے کہا کہ اس سال ایک بھی اسکول بند نہیں ہو گا، اگر کوئی اسکول بند ہوتا ہے تو اسے کھولنا وزارت تعلیم کی ذمہ داری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کی شازیہ پاکستان میں رہ کر تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہیں

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد لڑکیوں اور خواتین کو اسکولوں اور کالجوں میں داخلے اور تعلیم کے حصول کی اجازت دینا ایک اہم مطالبہ رہا ہے۔

لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ سلوک پر تشویش اور معزول انتظامیہ کے سابق فوجیوں اور اہلکاروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے پیش نظر بیشتر ممالک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

دوسری جانب طالبان نے مبینہ بدسلوکی کے ان الزامات کی تحقیقات کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے سابقہ ​​دشمنوں سے بدلہ نہیں لینا چاہتے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان نے مارچ میں تمام لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کا عندیہ دے دیا

یاد رہے کہ 1996 سے 2001 تک اپنے سابقہ دور حکومت میں طالبان نے افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور زیادہ تر ملازمتوں پر پابندی لگا دی تھی اور موجودہ دور حکومت میں بھی خواتین اور لڑکیوں کے مقابلے میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کا رخ کرنے والے لڑکوں اور مرد اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں