حکومت کا آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 18 مارچ 2022
فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 186 کے تحت ریفرینس دائر کیا جائے گا—فائل/ فوٹو: ڈان
فواد چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 186 کے تحت ریفرینس دائر کیا جائے گا—فائل/ فوٹو: ڈان

پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63-اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ سےرجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں بتایا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آرٹیکل 63اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ میں آرٹیکل 186 کے تحت ریفرنس دائر کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے رائے مانگی جائے گی کہ جب ایک پارٹی کے اراکین واضح طور پر ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوں اور پیسوں کے بدلے وفاداریاں تبدیل کریں تو ان کے ووٹ کی قانونی حیثیت کیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا ایسے اراکین جو اپنی وفاداریاں معاشی مفادات کے وجہ سے تبدیل کریں تو ان کی نااہلیت زندگی بھر کے لیے ہوگی یا انھیں دوبارہ انتخاب لڑنے کی اجازت ہو گی؟

یہ بھی پڑھیں:سندھ ہاؤس ہارس ٹریڈنگ کا مرکز ہے، سخت ایکشن پلان کر رہے ہیں، فواد چوہدری

وزیر اطلاعات نے ٹوئٹ میں کہا کہ سپریم کورٹ سے درخواست کی جائے گی کہ اس ریفرینس کو روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ سنایا جائے۔

قبل ازیں ایوان میں فلور کراسنگ کرنے والے حکومتی اراکین کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کے تحت کارروائی کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔

حکومت کی جانب سے مذکورہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب پی ٹی آئی کے متعدد قانون سازوں کے سندھ ہاؤس اسلام آباد میں چھپے ہونے کا انکشاف ہوا جبکہ اس پیش رفت سے اشارہ مل رہا ہے کہ اپوزیشن کی اتحادی جماعتوں کا تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ درست ہے۔

وزیراعظم عمران خان اور کابینہ کے چند ورزا نے الزام عائد کیا تھا کہ اپوزیشن تحریک اعتماد کی کامیابی کےلیے ووٹنگ پر ہارس ٹریڈنگ کر رہی ہے، انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ دارالحکومت میں واقع سندھ ہاؤس میں اراکین کی خرید و فروخت کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ ہاؤس پر صوبائی پولیس کی موجودگی پر انتظامیہ کو تشویش

حکومت کے متعدد اراکین مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ ان مخالفین نے 'اپنا ضمیر پیسوں کے لیے فروخت کیا ہے'، متعدد ٹیلی ویژن چینلز نے اس دعوے کی تصدیق کی ہے کہ پی ٹی آئی کے درجنوں اراکین جن کا عمران خان کی حکومت سے اختلاف پیدا ہوا چکا ہے وہ اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دینے جارہے ہیں'۔

ٹیلی ویژن فوٹیجز میں پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کو دکھایا گیا، جن میں چند خواتین قانون ساز بھی شامل ہیں، جن کو وسیع و عریض سندھ ہاؤس میں بیٹھے ہوئے دیکھا گیا ہے جو چیف جسٹس آف پاکستان کی سرکاری رہائش گاہ کے بالکل سامنے واقع ہے۔

آرٹیکل 63 اے

آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمنٹیرین وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فلور کراسنگ پر اسپیکر قومی اسمبلی کے ڈیکلریشن پر کارروائی ہوسکتی ہے، الیکشن کمیشن

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ 'منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا'۔

اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔

بعدازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 دن ہوں گے۔

آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن 'ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی'۔

حکومت کی جانب سے اس سے قبل ہی اشارہ دیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام کرنے کے لیے آرٹیکل 63 اے کا استعمال کیا جائے گا۔

رواں ہفتے کے آغاز میں پارلیمانی امور کے بارے میں وزیر اعظم کے مشیر بابر اعوان نے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کا مقصد یہ ہے کہ پارٹی قیادت کے نام پر ووٹ لینے والے کسی شخص کو فلور کراسنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ہم آئین اور قانون کے ذریعے تحریک عدم اعتماد کچل دیں گے'۔

تبصرے (0) بند ہیں